Book Name:Khaja Huzoor Ki Nirali Shanain

مٹی میں اُتر گیا، وَلِیُّ اللہ کو بھی چھوٹی سی قبر میں دفن کر دیا گیا مگر قرآن کہتا ہے: ان کی موت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ گنہگار مرتا ہے تو مر کر مٹی میں مِل جاتا ہے، وَلِیُّ اللہ  کو موت آتی ہے تو وہ بقا پاجاتے ہیں۔

کون کہتا ہے وَلی سب مَر گئے

قید سے چھوٹے وہ اپنے گھر گئے

قبر مبارک سے آواز دِی تم بخشے ہوؤں میں سے ہو...!!

حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہِ عَلَیْہ جن کا مزار شریف پاکپتن میں ہے، آپ بھی بہت بڑے ولئ کامِل ہیں، فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اجمیر شریف حاضِر ہوا اور حضرت خواجہ معین الدِّین چشتی اجمیری یعنی خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہِ عَلَیْہ کے روضۂ مُبارِک پر ٹھہرا رہا، یہ عرفہ کی رات تھی، میں نے مزارِ پُراَنْوار کے قریب (قبلہ کی طرف رُخ کر کے) نماز ادا کی،  پِھرنماز سے فارِغ ہو کر وہیں بیٹھ کر تِلاوت کرنے میں مصروف ہو گیا۔ یہیں بیٹھے بیٹھے میں 15 سپارے تِلاوت کر چکا تھا، سُورۂ کہف یا سُورۂ مریَم کی تِلاوت کر رہا تھا کہ مجھ سے پڑھنے میں غلطی ہوئی اور ایک حرف چُھوٹ گیا۔ مجھے چونکہ اس غلطی کا احساس نہیں ہوا تھا، میں آگے پڑھنے لگا تو مزارِ پُر اَنْوار سے آواز آئی: یہ حرف چھوڑ گئے ہو، دوبارہ پڑھو! میں نے اس مقام سے دوبارہ پڑھا، اب آواز آئی: عمدہ پڑھتے ہو، خَلْفُ الرَّشِید (یعنی اچھے بیٹے) ایسا ہی کرتے ہیں۔ بابا فرید رحمۃ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس کے بعد میں تِلاوت کرتا رہا، جب میں تلاوت مکمل کر چکا تو میں نے رَو رَو کر دُعائیں کیں، مجھے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ آہ! نہ جانے میں بخشے ہوؤں میں سے ہُوں یا نہیں ہوں، اس ڈر کے سبب میں رَو رہا تھا کہ اچانک