Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten

کاٹ لے تو یہ لوٹ کر گھر واپس نہیں آئے گا ، یہ بندہ ایسا نہیں سوچے گا کہ کالی بلّی نے میرا راستہ کاٹ لیا ہے تو اب میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ اپنا ذِہن بنا چکا ہے : اِنْ شَآءَ اللہ یعنی اگر اللہ پاک نے چاہا تو میں یہ کام کر لوں گا ، اب کالی بلّی راستہ کاٹے یا کالا کَوَّا سامنے سے گزر جائے ، غرض؛ کچھ بھی ہو جائے اگر اللہ پاک چاہے تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر ہی رہوں گا ، دُنیا کی کوئی طاقت مجھے ناکام نہیں کر سکتی اور اگر اللہ پاک نہ چاہے تو بھلے کتنی ہی کوشش کر لوں ، دُنیا کی کوئی طاقت مجھے میرے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتی۔

معلوم ہوا؛ اگر ہم اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی عادَت بنا لیں اور اِنْ شَآءَ اللہ کے مفہوم پر پختہ یقین بٹھا لیں تو اس کی برکت سے ہم بدشگونی سے بچ جائیں گے۔

ماہِ صَفَر منحوس نہیں ہے

اب جیسے ماہِ صَفَرُ المُظَفَّر ہے ، بہت سارے وَہمی طبیعت کے لوگ ماہِ صَفَر کو مصیبتوں ، آفتوں کا مہینا سمجھتے ہیں * خصوصاً اس کی ابتدائی 13 تاریخیں جنہیں “ تیرہ تیزی “ کہا جاتا ہے ، ان تاریخوں کو بہت منحوس سمجھا جاتا ہے * وہمی طبیعت کے لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صَفَر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرنا چاہئے ، ورنہ نقصان کا خطرہ ہے * صَفرَ المظفر میں سَفَر کرنے سے بچنا چاہئے ، حادثہ ہو جانے کا خطرہ ہے * اس مہینے میں شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں ، گھر برباد ہو جانے کا خدشہ ہے * بہت سارے وہمی طبیعت کے لوگ ماہِ صفر میں بڑا کاروبار شروع نہیں کرتے * کاروباری لین دین نہیں کرتے * گھر سے باہَر آمد و رفت میں کمی کر دیتے ہیں ، یہ سب بدشگونیاں ہیں ، وَہمی