Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten

بہت ہرا بھرا اَوْر پھل دار تھا ، قرآنِ کریم میں اس باغ کا واقعہ بیان ہوا۔ پاہ : 29 ، سورۂ قَلَم ، آیت : 17 سے 33 تک اس واقعے کا بیان ہے۔ علمائے کرام اِنْ آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں : یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا ایک شخص  بہت نیک اورسخی تھا ، اس کے پاس ایک خوب صُورت باغ تھا ، اس شخص کی عادت تھی کہ اس کے باغ کے جتنے پھل خود بخود زمین پر گِر جاتے ، یہ فقیروں کو کہتا کہ یہ سارے پھل تمہارے ہیں ، تم اٹھا لو۔ پھر جب باغ سے پھل توڑے جاتے تو درختوں کے نیچے کپڑے بچھا دئیے جاتے ، جو پھل کپڑوں پر گِرتے ، وہ بھی فقیروں کو دے دیتا ، پھر جو خالص اس کا اپنا حصہ ہوتا ، اس میں سے بھی 10 واں حصہ فقیروں کو دے دیا کرتا تھا۔ اس شخص کے 3 بیٹے تھے اور تینوں ہی کنجوس تھے ، جب اس شخص کا انتقال ہوا تو باغ ان تینوں بیٹوں کے قبضے میں آیا ، اب انہوں نے سوچا؛ ہمارے والِد اکیلے تھے ، وہ اتنی سخاوت کر لیا کرتے تھے ، فقیروں کو اتنا مال دینے کے بعدبھی اُن کےلئے کافِی کچھ بچ جاتا تھا مگر ہم تین ہیں ، پھر ہماری اَوْلادیں بھی ہیں ، اگر ہم بھی اسی طرح سخاوت کریں گے تو ہمارے لئے پھل نہیں بچ سکیں گے لہٰذا بہتری اس میں ہے کہ ہم اتنی زیادہ سخاوت نہ کریں۔  ایک رات جب باغ کے پھل پَک چکے تھے ، اگلے دِن پھل توڑنے تھے ، یہ تینوں بھائی بیٹھ کرمنصوبہ بنا رہے تھے ، انہوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح منہ اندھیرے ، لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔

ان تینوں نے راتوں رات یہ منصوبہ بنایا ، بڑے پُرجوش تھے کہ کل ہم پھل توڑیں گے مگر انہوں نے ایک غلطی کی۔ اَوَّل تو یہ کام ہی غلط کر رہے تھے ،  سخاوت سے منہ موڑ