Book Name:Achi Aur Buri Mout

اب پچھتائے کیا ہَوَت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت

کبوتر کے اس عمل کو “ تجاہُلِ عارِفَانہ (جان بوجھ کر جاہِل بننا)کہتے ہیں۔ کم وبیش موت کے مُعَاملے میں ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔  موت سے متعلق 3 باتیں ہیں جنہیں ہم جانتے بھی ہیں ، مانتے بھی ہیں اوردِل سے اِن پر یقین بھی رکھتے ہیں ، پھر بھی اَکْثَر لوگ اس سے غفلت کرتے ہیں۔

*ہم یقین رکھتے ہیں کہ موت ہر ایک کو آئے گی ،  کوئی امیر ہے یا غریب ، فقیر ہے یا بادشاہ ، کوئی نیک ہے یا گنہگار ، تہجد گزار ہے یا نمازوں میں سستی کا شِکار ، کوئی عہدے دار ہے یا بےروز گار ، غرض؛ ہر ایک کو موت آنی ہی آنی ہے ، کوئی بھی موت کے شکنجے سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ، حتّیٰ کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بارگاہوں میں بھی موت نے حاضِری دی ، ہاں! انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی اور ہماری موت میں زمین آسمان کا فرق ہے ، سیدی اعلیٰ حضرت اِمامِ اہلسنت مولانا شاہ اِمام احمد رضا خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :

انبیاء کو بھی اَجَل آنی ہے               مگر ایسی کہ فَقط آنی ہے([1])

یعنی یقیناً انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام  کی بارگاہ میں بھی موت نے حاضِری دی مگر اُن کی موت فقط آنی (یعنی لمحے بھر کی) ہے ، اس کے بعد پھر انہیں پہلے جیسی ہی زِندگی عطا کر دی جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں کئی بار ارشاد ہوا :

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ  (پارہ21 ، سورۂ عنکبوت : 57)          

ترجمہ کنزُ العِرفان : ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

یہ بات ہم جانتے ہیں ، مانتے ہیں ، دِل سے اس پر یقین بھی رکھتے ہیں مگر ہمارا جینے کا


 

 



[1]...حَدائقِ بخشش ، صفحہ : 372۔