Book Name:Baap Jannat Ka Darmiyani Darwaza He

بھلا وہ کیونکر اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرپا ئیں گے؟شاید اسی وجہ سے آج اولاد کی تربیت کا معیار یہ بن چکا ہے کہ بچہ اگر کام کاج نہ کرے،اسکول ،کوچنگ سینٹر، ٹیوشن یا اکیڈمی سے چھٹی کرلے یا اس معاملے میں سُستی کا شکار ہو،کسی تقریب میں جانے کا یا مخصوص لباس و جوتے پہننے کا کہا جائے اور وہ اس پر راضی نہ ہو،اسی طرح دیگر دنیوی معاملات میں وہ”اگر مگر“ اور”چونکہ چنانچہ“ سے کام لے یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو  اس کا ٹھیک ٹھاک  نوٹس لیا جاتا ہے،کھری کھری سُنائی جاتی ہے،گھنٹوں ليكچردئیے جاتے ہیں،حتّٰی کہ مار پیٹ  سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا، لیکن اگر وہی بچہ نمازیں قضا کرے یا جماعت سے نماز نہ پڑھے،مدرسے یا جامعہ کی چھٹی کرلے یا تاخیر سے جائے،پوری پوری رات آوارہ گردی کرے، فلمیں ڈرامے دیکھے،گانے باجے سُنے،ناجائز فیشن اپنائے،حرام و حلال کی پروا نہ کرے، غیبتیں کرے ناجائز فیشن اپنائے، فُضول کاموں میں پیسہ برباد کرے ،الغرض طرح طرح کی بُرائیوں میں مُبْتَلا  ہوجائےمگران مُعاملات میں اس سے پوچھ گچھ کرنا تو دُور کی بات ہے والدین  کی پیشانی پر بَل تک نہیں آتا،یہ نظارے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کوئی اصلاح کرے بھی تو ابھی تو یہ بچہ ہے “،”نادان ہے“،”آہستہ آہستہ سمجھ جائے گا“،”بچوں پراتنی بھی سختی نہیں کرنی چاہئے“وغیرہ۔اسلامی تربیت سے محروم،حد سے زیادہ لاڈ پیار اور ڈِھیل دینے کے سبب وہی  بچہ جب ماں باپ،خاندان اور معاشرے کی بدنامی کا سبب بنتا ہے،ڈانٹ ڈپٹ کرنے یا پیسے نہ دینے پرماں باپ کو آنکھیں دکھاتا،جھاڑتا یا ماں باپ پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اس وَقْت ماں باپ کو خیر خواہوں کی نصیحتیں یاد آنے لگتی ہیں،اب ماں باپ اس کی اصلاح کے لئے کڑھتے، دعائیں کرتے اور کرواتے ہیں مگر اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی،اس وَقْت پانی سر سے بہت  اُونچا ہوچکا ہوتا ہے اور پچھتانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔گویا کہ والدین کی تھوڑی سی لاپروائی کی وجہ سےایک قیمتی موتی ضائع ہوچکاہوتا ہے۔