Book Name:Aala Hazrat Ka Ilm-o-Amal

ان کا حافظہ اور دماغی باتیں ہم لوگوں کی سمجھ سے با ہر تھیں۔(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری ،۱/ ۱۰۳مکتبہ نبویہ)

3) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اپنے والدِ ماجِد رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے حکم پر  1286 ھ مطابق 1869ءمیں  فتاویٰ لکھنا شروع فرمائے اور والد صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے اپنے فتاویٰ پر اصلاح لیاکرتے تھے ، 7سال(Seven  years) کے بعد انہوں  نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکو اجازت دے دی کہ اب فتاویٰ مجھے دکھائے بغیر سائلوں  کو روانہ کردیا کرو مگرآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ان کےدنیاسے تشریف لے جانے تک اپنے فتاویٰ چیک کرواتے رہے،چنانچہ  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ خود لکھتے ہیں:’’سات برس کے بعد مجھے اِذن(اجازت نامہ عطا) فرمادیا کہ اب فتوےلکھو ں اور بغیر حضور (یعنی اپنے والدِ ماجِد رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ)کو سنائے سائلوں(سوال کرنے والوں) کو بھیج دیاکروں ، مگر میں  نے اس پر جرأت نہ کی یہاں  تک کہ ربِّ کریم نے حضرتِ والا کو ذی القعدہ ۱۲۹۷  ھ میں  اپنے پاس بلالیا۔(فتاویٰ رضویہ ،۱ / ۹۴)

احمد رضا کا تازہ گُلستاں ہے آج بھی                                       خورشیدِ علم ان کا درخشاں ہے آج بھی

کس طرح اتنے عِلْم کے دریا بہا دئیے                                             عُلَمائے حق کی عقْل تو حیراں ہے آج بھی

بھر دی دلوں میں اُلفت و عظمت رسول کی                      جو مخزنِ حلاوتِ ایماں ہے آج بھی

(مناقبِ رضا،ص۶۶)

پیاری پیاری ا سلامی بہنو! سنا  آپ نے!اللہ کریم نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو کیسی بےمثال  قوتِ حافظہ عطا فرمائی تھی۔اَلْحَمْدُلِلّٰہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اللہ کریم کی اس عظیم نعمت کا بہترین استعمال فرمایا اور اس کے ذریعے فتاویٰ لکھ کر اُمّت پر احسانِ عظیم فرمایا،جس کی واضح مثال آپ