Book Name:Allah Ki Rahmat Boht Bari Hay

دے گا۔ ہم تو بخشے بخشائے ہیں وغیرہ وغیرہ،ایسے خیالات کو اپنے آپ سے دور کیجئے۔

رحمتوں کے تاج والے آقا،عرش کی معراج والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ پاک کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ، باب ۲۵،۴/۲۰۸،حدیث:۲۴۶۷)

جبکہ حضرت یحییٰ بن مُعاذرازیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ارشادفرماتےہیں:’’کوئی حماقت اس  سے بڑھ کر نہ ہوگی کہ انسان دوزخ  کا بیج بوئے اورجنت کی فصل کاٹنے کی اُمید رکھے، کام گناہ گاروں والے اور مقام نیکوں والا تلاش کرے۔‘‘(کیمیائے سعادت، ۲/۸۱۱ )

      پىارے پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا کہ رحمتِ الٰہی سے امید باندھنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنا اور نیک اعمال میں مصروف رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ گناہوں کے باوجودرحمتِ الٰہی  سے بخشش کی امیدرکھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہوں پر دلیر(Bold)ہوجاتا ہےاور  گناہ کے بعد شیطان کی جانب سے اسی طرح کی میٹھی میٹھی باتیں قبول کرنے کی عادت ، پچھلے گناہوں پر ندامت  کے بجائے آئندہ گناہ کرنے کی جُرأت پیدا ہوجاتی ہے۔

ذرا سوچئے تو سہی! انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام ،صحابہ کرام  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان سے زیادہ رحمتِ الٰہی کے حق دار کوئی اور نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ خوش نصیب حضرات  ہیں کہ ان سے زیادہ کسی کو رحمتِ الٰہی پر یقین نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی یہ  نیک ہستیاں عبادت  وتلاوت  اور نیک اعمال کی کثرت  میں ہرگز سُستی  نہ کرتیں۔ یقیناً انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامپکے جنّتی ہیں۔ اسی طرح کئی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ایسے ہیں جنہیں رسولِ بے مثال، مکی مدنی لجپال صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ