Book Name:Allah Ki Rahmat Boht Bari Hay

اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا عَلِیُّ المُرْتَضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا نام’’علی بِن ابی طالب‘‘اور کنیت ’’ابو الحسن“ بھی ہے اور”ابو تُراب ‘‘بھی۔ آپ رَسُولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ابو طالب کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ محترمَہ کااسمِ گرامی”فاطمہ بنت ِ اسد بِن ہاشم“ہے۔اَمِیْرُ المُومِنین حضرتِ سَیِّدُنا عَلِیُّ المُرْتَضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  کی ذاتِ مبارکہ بچپن ہی سے سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نورِ نظر تھی،آپ حضورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پرورش میں رہے،آپ کی بہت سی خصوصیات (Qualities)میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ نبی عَلَیہِ السَّلَام سے یہ خوش خبری بھی پانے والے ہیں کہ اے علی! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو،(ترمذی ،کتاب المناقب ،باب ۲۰،۵/۴۰۱،حدیث:۳۷۴۱)چنانچہ

حضرتِ سَیِّدُنا عَبْدُ اللہ بِن عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب مدینۂ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت عَلِیُّ المُرْتَضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یا رَسُوْلَ اللہ!(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ)آپ نے سارے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِضْوَان کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے  کسی کا بھائی نہ بنایا ، حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ یعنی(اے علی) تم دُنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو۔(ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب علی بِن ابی طالب ،۵/ ۴۰۱، حدیث: ۳۷۴۱)اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ‘‘یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا یعنی آقا ہے۔ (تِرمِذی،۵/۳۹۸،حدیث۳۷۳۳)

جس  کسی کا  میں ہوں مولیٰ اس کے مولیٰ ہیں علی                 ہے یہ قولِ مُصْطَفٰے مولیٰ علی مشکلکُشا

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۵۲۱)