Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

حُضُور تاجدارِ مدینہ منوّرہ، سلطانِ مکّہ مکرّمہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے اجازت ملنے سےپہلے ہی پردہ ہٹا کر مکان کے اندر نظر کی اور گھر والوں کے سِتْر کو دیکھااُس نے ایسا کام کیا جو اُس کیلئے حلال نہ تھا،حتی کہ اس کے دیکھنے کے وقت اگر کوئی بڑھ کر اُس کی آنکھ پھوڑ دے تو اِس پر میں اُسے(یعنی آنکھ پھوڑنے والے کو)شرم نہ دلاؤں گا۔اگر کوئی ایسے دروازے کے پاس سے گزرا جس پرکوئی پردہ نہیں تھا اور وہ  کھلا ہوا بھی تھا ،لہٰذا اُس نے(بِلاقَصد) دیکھا تو اُس پر گناہ نہیں بلکہ خطاگھر والوں کی ہے۔( ترمذی،کتاب الاستیذان والآداب،باب ماجاء فی الاستیذان الخ،۴/ ۳۲۴ ،حدیث :۲۷۱۶) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یارخانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے الفاظ”اسے شرم نہ دلاؤ ں گا“ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی آنکھ پھوڑ دینے والے کو نہ تو کوئی سزا دوں گا نہ ملامت کروں گا کیونکہ یہاں قُصور اس جھانکنے والے کا ہے (یاد رہے! ) احناف کے نزدیک یہ فرمانِ عالی ڈرانے دھمکانے کے لیے ہے ورنہ اس آنکھ پھوڑنے والے سے آنکھ کا قِصاص ضَرور لیا جائے گا ربّ تعالیٰ نے فرمایا:،آنکھ توآنکھ کے بدلے میں پھوڑی جاسکتی ہے نہ کہ تاک جھانک کے عوض۔ (مرآۃ المناجیح،۵/۲۵۷)

ہمارے اسلاف دوسروں کے گھروں میں تانک جھانک کرنے کو کس قدرمعیوب جانتے تھے، آئیے!اس ضمن میں 2 عبرت آموز حکایات سُنتے ہیں،چُنانچہ

حضرت سیِّدُنا عبدُاﷲ بن عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما اپنے ایک مُصاحِب کے ساتھ کسی شخص کے گھر تشریف لے گئے۔ جب اس کے گھر میں داخِل ہوئے تو ان کا رفیق اِدھر اُدھر دیکھنے لگا توحضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما  نے فرمایا:اگر تیری دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی ہوتیں تو تیرے لئے بہتر تھا۔ (الادب المفرد،ص۳۳۳،حدیث: ۱۳۰۵)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! سُنا آپ نے کہ بلا ضرورت گھروں میں جھانکنا کس قدر تباہ