Book Name:Auliya Allah Ki Shan

تعالٰی بندے سے راضی ہوگیا تو کونین (یعنی دوجہاں) بندے کے ہوگئے،رَبّ تعالیٰ فرماتا ہے: (رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ  )([1]) (یعنی اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی)پھر بندے پر وہ وقت آتا ہے کہ رَبّ تعالٰی بندے کو راضی کرتا ہے(جیساکہ) حضرت سَیِّدُنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مُتَعَلِّق فرماتاہے: ( وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠(۲۱))([2])اللہ تعالٰی صدّیق کو اتنا دے گا کہ وہ راضی ہوجائیں گے،غرضکہ آسمانوں میں اس (رضائے الٰہی طلب کرنے والے بندۂ مومن )کے نام کی دُھوم مچ جاتی،شور مچ جاتا ہے کہ” رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ(مزید فرماتے ہیں کہ )یہ دعائیہ کلمہ ہے،یعنی اللہ تعالٰی اس پر رحمت کرے،یہ دُعا یا تو فرشتوں کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے یا خود وہ فرشتے اپناقُربِ الٰہی بڑھانے کیلیے یہ دُعائیں دیتے ہیں،(پھر یہ رحمت اُس بندۂ مومن کیلئے زمین پر نازل ہوتی ہے)اس طرح کہ قدرتی طور پر انسانوں کے منہ سے اس کے لیے ”رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اور رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ“جیسے دُعائیہ کلمات نکلنے لگتے ہیں اور لوگوں کے دل خود بخود اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں،دلوں کی قدرتی کشش بندۂ مومن کے محبوبِ خدا بن جانے کی دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اور خواجہ اجمیری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جیسے (بہت سے )بزرگوں کو ہم لوگوں نے دیکھا نہیں، مگر سب کو ان سے دلی محبت ہے۔([3])

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بُلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فُلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ

 حضرت جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ


 



[1]  پ۳۰،البینۃ:۸

[2] پ۳۰،اللیل:۲۱

[3]…  مرآۃ المناجیح،۳/۳۸۹،بتغیر قلیل