Book Name:Auliya Allah Ki Shan
ضَرور عطا فرماتا ہوں اوراگرکسی چیز سے میری پناہ چاہے تو میں اسے ضرور پناہ عطا فرماتا ہوں۔([1])
مُفَسِّرِشہیر،حکیمُ الْاُمَّت،مُفْتی احمد یارخانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیث ِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی وَلی میں حُلُول کرجاتا ہے جیسے، کوئلہ میں آگ یا پھول میں رنگ و بُو،کہ خدا تعالیٰ حُلُول سے پاک ہے اور یہ عقیدہ (رکھنا)کفر ہے(بلکہ اس حدیث کامطلب یہ ہے ) کہ وہ بندہ فَنا فِی اﷲ ہوجاتا ہے، جس سے خدائی طاقتیں اس کے اَعضاء میں کام کرتی ہیں اور وہ ویسے کام کرلیتا ہے جو عقل سے وَراء ہیں (جیسا کہ )حضرت سلیمان(عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )نے تین(3) مِیل کے فاصلہ سے چیونٹی کی آواز سُن لی،حضرت آصف بن برخیا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)نے پلک جھپکنے سے پہلے یَمن سے تختِ بلقیس لاکر شام میں حاضر کردیا۔حضرت عُمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)نےمدینۂ منورہ سے خُطبہ پڑھتے ہوئے نَہاوند تک اپنی آواز پہنچادی۔حُضورِ اَنْور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے قیامت تک کے واقعات بچشم مُلاحظہ فرمالیے۔یہ سب اسی طاقت کے کرشمے ہیں۔اس حدیث سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو طاقتِ اولیاء کے منکر ہیں۔([2])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب بندے کو اللہعَزَّ وَجَلَّ کا خاص قُرب نصیب ہوجاتا ہےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ قوتِ بصارت(یعنی دیکھنے کی طاقت)سے وہ مِیلوں کے فاصلوں کو بھی ملاحظہ فرما رہا ہوتا ہے۔جیساکہ حضرتِ سیِّدُناغوثِ اَعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ اِلٰی بِلَادِاللّٰہِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتِّصَالٖ
یعنی میں اللہعَزَّ وَجَلَّ کے تمام شہروں کواس طرح دیکھتا ہوں، جس طرح ہتھیلی پر رائی کا دانہ ہو۔