Book Name:Ala Hazrat Ka Husn e Akhlaq

موجو د تھے،آپ کو بڑے آرام و عافیت کے ساتھ لے گئے ۔جیسے ہی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ  وہاں پہنچے ایک صاحب تشریف لائے اور عرض کی کہ حضور!آپ  شاید ریل(Train) پر سوار ہوئے ہوں(گے) کہ مریضہ کو شفاء ہونی شروع ہو گئی۔اب حضور کے قدم مبار ک آگئے ہیں تو بالکل صحت یاب ہو جائے گی اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے دو دن قیام فرمایا،اللہعَزَّ  وَجَلَّ کے فضل و کرم سے مریضہ اچھی ہو گئی ،بڑی خاطر و ادب و تعظیم کے ساتھ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو رخصت کیا گیا۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص۱۸۳ )

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! دیکھا آپ نے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کثیر مصروفیات کے باوجود لوگوں کی دِلجوئی کے لئے مریضوں کی عیادت فرماتے تھے ،یقیناً بیماروں کی عیادت کرنا کارِ ثواب اور بہت بڑی سعادت کی بات ہے لیکن بعض اوقات عیادت کرنے والے لوگ مریض کے لئے راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں۔بِلاضرورت مرض کی تفصیل(details)پوچھنا، طِبّی معاملات سے لاعِلْم ہوتے ہوئے بھی اسے طرح طرح کے مشورے دینا اور دیگر فضول سوالات کرنا مریض کے لئے کوفْت کا سبب بن جاتے ہیں، بہر حال عیادت کرنے میں مریض کی کیفیت کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر یہ محسوس ہو کہ ہماری موجودگی مریض کے لئے تکلیف کا سبب ہے تو جلد وہاں سے روانہ ہوجانا چاہئے،لیکن اگر مریض کے پاس بیٹھنے سے اسے اُنس حاصل ہو تو پھر بیٹھنا بہتر ہے ۔جیسا کہ حضرت علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:جس وقت یہ گمان ہوکہ مریض اس شخص کے زیادہ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے،مثلاً  وہ اس کا دوست یا کوئی بُزُرگ ہے یا وہ اس میں اپنی مصلحت سمجھتا ہے ،اسی طر ح کوئی اور فائدہ ہو تو اس وقت مریض کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الجنائز،۴/۶۰،تحت الحدیث:۱۵۹۱)