Book Name:اِنْ شَآءَاللہ Kehnay Ki Barkaten

ہیں ، اس پر تھوڑی سی مٹی ڈالتے ہیں ، اُوپر دانے ڈال دیتے ہیں ، ہُدْ ہُدْ دانے چگنے کے لئے آتا ہے ،  ہمارے بچے اسے جال میں پھنسا کر پکڑ لیتے ہیں۔ جب ہُدْہُدْ تھوڑی سی مٹی کے نیچے بچھا ہوا جال نہیں دیکھ پاتا تو زمین کے نیچے کئی فِٹ گہرائی میں بہتا ہوا پانی کیسے دیکھ سکتا ہے؟

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس سُوال کا بہت ایمان افروز جواب دیا ، فرمایا : اِذَا نَزَلَ الْقَضَاءُ وَ الْقَدْرُذَہَبَ اللُّبُّ وَ عَمِیَ الْبَصَرُ یعنی جب تقدیر غالب آتی ہے تو عقل کام نہیں کرتی ، آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ ([1])

یہی انسان کا حال ہے ، اللہ پاک کی تدبیر ہمیشہ غالِب آتی ہے ، انسان کی تدبیر  دَھری کی دَھری رِہ جاتی ہے۔ * مولانا رُوْم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے مَثْنَوِی شریف میں ایک عبرتناک واقعہ ذِکْر فرمایا : ایک بار ایک فلسفی کہیں سے گزر رہا تھا ،  اُس کے کانوں میں تِلاوتِ قرآن کی آواز آئی ، کوئی شخص سورۂ مُلْک کی تِلاوت کر رہا تھا ، جب اُس نے سورۂ مُلْک کی آخری آیت تِلاوت کی ، جس میں اللہ پاک فرماتا ہے :

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ۠(۳۰)  (پارہ29 ، سورۃالملک : 30)

ترجمہ : تم فرماؤ : بھلا دیکھو تو اگر صبح کو تمہارا پانی زمین میں دھنس جائے تو وہ کون ہے جو تمہیں نگاہوں کے سامنے بہتا ہوا پانی لا دے؟

یہ آیتِ کریمہ سُن کر وہ فلسفی تَکَبُّر اور غرور سے بولا :  یہ کونسی مشکل بات ہے ، اگر اللہ پاک پانی کو زمین میں دھنسا دے تو ہم سائنس کے بَل پر مختلف آلات کے ذریعے پانی کو پھر نکال لیں گے۔ فلسفی نے یہ بات کہی اور اپنے راستے چلا گیا ، رات کو جب یہ سویا تو


 

 



[1]...تفسیر بغوی ، پارہ : 9 ، سورۂ نمل ، زیرِ آیت : 20 ، جلد : 3 ، صفحہ : 392۔