Book Name:Aala Hazrat Ka Ishq-e-Rasool

حقیقت کیا!تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ (یعنی مدینے کے کُتّے) گلیوں میں دیوانہ وارپھر رہے ہیں۔

یہ غزل عَرْض کرکے دِیدار کے اِنتظار میں مُؤدَّب(یعنی بااَدَب)بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی اور چشمانِ سر(یعنی سر کی آنکھوں ) سے بیداری میں اللہ پاک کےپیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زیارت سے مُشرَّف ہوئے۔([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی اسلامی  بہنو! معلوم ہوا!اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے  عِشْقِ رسول  کو اپنی زندگی کا سرمایَہ اور ذکرِ رسول کو گویا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا،ساری عُمْر اپنے محبوب آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان وعظمت میں نعتیں لکھ لکھ کر مسلمانوں کے جذبہِِعِشْقِ رسول کو  گرماتے رہے اوراپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزّت و نامُوس کی حفاظت کرتے رہے،چونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ عاشِقِ صادِق تھے، لہٰذا دِیارِ حبیب کی حاضری کا شوق سینے میں موجیں مارتا رہا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے کریم آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضری کی سعادت ملی تو عِشْقِ مُصْطَفٰے میں ڈُوبے ہوئے اَشعار،اُس پاک بارگاہ میں پیش کردئیے۔رِقّت و سوز سے بھرپور اَشْعار کو دَرَجَۂ قبولیّت حاصل ہوا،غیب دان آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رحمت کو جوش آیا اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دِیدار کا شربت پِلاکر گویا،اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے عاشِقِ صادق ہونے پر اپنی مُہر لگادی ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

 



[1]   تذکرۂ امام احمد رضا،ص۱۳ملخصاً