Book Name:Fazilat ka Miyar Taqwa hay

آیت نازل ہوئی۔(تفسیرخازن،پ۲۶،الحجرات،تحت الآیۃ:۱۱،۴/۱۶۹ملخصاً)

حضرت سیِّدُنا اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:اس حکمِ خُداوندی کامقصد یہ ہے کہ کسی کو حقیر نہ سمجھو، ہو سکتا ہے وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے نزدیک تم سے بہتر، افضل اور زیادہ مقرَّب ہو۔(الزواجر،الباب الثانی:فی الکبائر الظاہرۃ ،الکبیرۃ الثامنۃ الخ، ۲ /۱۱)

شیخُ الحدیث  حضرت علامہ عبدالمصطفٰے اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اس زمانے میں جو ایک فاسقانہ اور سراسر مُجرمانہ رِواج نکل پڑا ہے کہ ”شیخ“اور ”پٹھان“ وغیرہ کہلانے والوں کا یہ دستور بن گیا ہے کہ وہ دُھنیا(رُوئی دُھنکنے والا)، جولاہا(کپڑا بُننے والا)، قصائی، نائی کہہ کر مُخلص و مُتَّقی مسلمانوں کا مَذاق بنایا کرتے ہیں بلکہ ان قوموں کے عالموں کو محض ان کی قومیت کی بنا پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں ان کا مذاق بنا کر ہنستے ہنساتے ہیں۔حد ہو گئی کہ جو لوگ برسوں ان قوموں کے عالموں کے سامنے زانوئے تَلَمُّذْ طے کر کے(یعنی ان کی شاگردگی اختیار کرکے) خود عالم اور شیخِ طریقت بنے ہیں مگر پھر بھی محض قومیت کی بنا پر اپنے اُستادوں کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کا تَمَسْخُر کرتے(مذاق اُڑاتے) رہتے ہیں۔ اور اپنے نسب و ذات پر فخر کر کے دوسروں کی ذِلَّت و حَقارت کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ لِلّٰہ بتایئے کہ قرآنِ مجید کی روشنی میں ایسے لوگ کتنے بڑے مُجرم ہیں؟(مزید فرماتے ہیں:)مُلاحظہ فرمایئے کہ قرآنِ مجید نے یہ احکام اور وعیدیں بیان فرمائی ہیں کہ(1) کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ جن کا مذاق اُڑا رہے ہیں وہ مذاق اُڑانے والوں سے دنیا و آخرت میں بہتر ہوں۔(2)مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ ایک دوسرے پر طعنہ زَنی(ملامت) کریں۔ (3)مسلمانوں پرحرام ہے کہ ایک دوسرے کے لئے بُرے بُرے نام رکھیں۔ (4)جو ایسا کرے وہ مسلمان ہو کر ”فاسق“ہے۔(5)اورجواپنی ان حرکتوں سے توبہ نہ کرے وہ ”ظالم“ہے۔

حضرت  سَیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا:اگر کوئی گناہ گار مسلمان اپنے گناہ سے توبہ