Book Name:Ghaus e Pak ka Bachpan

پردہ خاتون اپنے مُنّے کی لاش چادر میں لِپٹائے سینے سے چِمٹائے زار و قطار رو رہی تھی۔ اتنے میں ایک ”مَدَنی مُنّا“دوڑتا ہوا آتا ہے اور ہمدردانہ لہجے میں اُس خاتون سے رونے کا سبب دَریافت کرتا ہے ۔ وہ روتے ہوئے کہتی ہے ، بیٹا! میرا شوہر اپنے لَخْتِ جگر کے دِیدار کی حَسْرت لیے دُنیا سے رُخْصت ہوگیا ہے ۔ یہ بچّہ اُس وَقْت پیٹ میں تھا اور اب یہی اپنے باپ کی نشانی اور میری زِندگانی کا سرمایہ تھا، یہ بیمار ہوگیا، میں اِسے اِسی خَانْقَاہ میں دَم کروانے لارہی تھی کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا ہے۔ میں پھر بھی بڑی اُمّید لے کر یہاں حاضر ہوگئی کہ اس خَانْقَاہ والے بُزرگ کی وِلایَت کی ہر طرف دُھوم ہے اور ان کی نگاہِ کرم سے اب بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے مگر وہ مجھے صَبْر کی تلقین کر کے اَندر تَشْرِیْف  لے جا چکے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھر رونے لگی۔ مَدَنی مُنّے کا دِل پگھل گیا اوراس کی رَحْمت بھری زَبان پر یہ اَلفاظ کھیلنے لگے ،”مُحْتَرمہ! آپ کا مُنَّا مَرا ہوا نہیں بلکہ زِنْدہ ہے ، دیکھو تو سہی وہ حرکت کر رہاہے!“دُکھیاری ماں نے بے تابی کے ساتھ اپنے مُنّے کی لاش پر سے کپڑا اُٹھاکر دیکھا تو وہ سچ مُچ زِندہ تھا اور ہاتھ پیر ہِلا کر کھیل رہا تھا ۔ اتنے میں خَانْقَاہ والے بُزرگ اَندر سے واپس تَشْرِیْف  لائے ، بچے کو زِنْدہ دیکھ کر ساری بات سمجھ گئے اور لاٹھی اُٹھا کر یہ کہتے ہوئے ”مَدَنی مُنّے“ کی طرف لپکے کہ تُونے ابھی سے تقدیرِ خُداوَندی عَزَّ  وَجَلَّ کے سَربَسْتہ راز کھولنے شُروع کردئیے ہیں! مَدَنی مُنّا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اوروہ بُزرگ اُس کے پیچھے دوڑنے لگے،’’مَدَنی مُنّا‘‘ یکایک قَبْرِستان کی طرف مُڑا اوربُلندآواز سے پُکارنے لگا: اے قَبْروالو!مجھے بچاؤ!تیزی سے لپکتے ہوئے بُزرگ اچانک ٹھِٹَھک کر رُک گئے کیونکہ قَبْرِستان سے تین سو مُردے اُٹھ کر اُسی’’مَدَنی مُنّے ‘‘کی ڈھال بن چکے تھے اور وہ ’’مَدَنی مُنّا‘‘دُورکھڑا اپنا چاند سا چہرہ چمکاتا مُسکرا رہا تھا۔ اُس بُزرگ نے بڑی حَسْرت کے ساتھ ’’مَدَنی مُنّے ‘‘کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: بیٹا!ہم تیرے مَرتبے کو نہیں پہنچ سکتے ، اِس لیے تیری مَرضِی کے آگے اپنا سرِتَسْلیم خَم کرتے ہیں۔(مُلَخَّص ازالحقائق فی الحدائق ج ۱ص۱۴۲