حترم قارئین ! آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ کریم کے کئی مبارک نام ایسے ہیں جو ربّ العزّت نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا فرمائے ہیں
ایسی احادیثِ مبارکہ ذخیرۂ حدیث میں الفاظ کے مختصر سے فرق سے بکثرت موجود ہیں۔ بعض روایات میں ” اَنَا “ کی جگہ ” اِنِّی “ مروی ہے ، نیز بعض روایات میں یہ دونوں فرامین ایک ہی روایت میں بھی مروی ہیں
شفاعت کا موضوع دینِ اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے شفاعت و سفارش کے مفہوم و معنیٰ میں بہت زیادہ غلو کیا جبکہ مسلمان کہلانے والے بعض حرمان
مذکورہ حدیث میں لِوَاءُ الْحَمْد یعنی حمد کا جھنڈا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ہونے کا بیان ہے ، اس کی شرح و تفصیل میں مفسرِ شہیر حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں
مقصد کسی بھی نوعیت کا ہو اس میں کامیابی کے لئے مستقل کوششیں ضروری ہیں ، جتنا بڑا مقصد اتنی بڑی اسٹرگل ، بعض اوقات مقصد کے حصول کے راستے میں اتنی رُکاوٹیں آتی ہیں
مفتی احمدیار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” اَولیٰ “ کے ایک معنیٰ ” زیادہ لائق “ کے بھی ہیں یعنی حضور علیہ السّلام جان سے بھی زیادہ اطاعت کے لائق ہیں۔
جیسا کہ خود حضور ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے اِردگِرد کی جگہ کو روشن کر دیا
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ مبارک فرمان کچھ الفاظ کے فرق سے مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا ہے ، بعض روایات میں ” اخشاكم “ کا لفظ بھی آیا ہے
ولید بن مغیرہ نے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بُرابھلا کہا تو ربِّ کریم نے اپنے محبوب کا اتنا اکرام فرمایا کہ ولیدبن مغیرہ کے رد میں قراٰنِ کریم کی کئی آیات نازل فرمادیں