فیضانِ تراویح

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ تراویح

درود شریف کی فضیلت:

امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’بے شک دُعازمین وآسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اُس سے کوئی چیز اوپر کی طرف نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھ لو ۔‘‘ (تِرمِذی ج۲ص۲۸حدیث۴۸۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تراویح سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں:

رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ،تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(مسلم ص۳۸۲حدیث۷۵۹) مُفسِّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے)گناہ معاف ہوجائیں گے کیونکہ گناہ ِکبیرہ(یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد (اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ)حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۲۸۸)

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:بے شک اللہ تَبارَک وَ تَعَالٰی نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔(نَسائی ص ۳۶۹ حدیث ۲۲۰۷)

سنت کی فضیلت:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّرَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنت بھی شامِل ہے اور سنت کی عظمت کے کیا کہنے ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جس نے میری سنت سیمَحَبَّتکی اُس نے مجھ سیمَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘ (ابن عساکر ج۹ص۳۴۳)

تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختم قراٰن بھی سنّتِمُؤَکَّدَہ۔

عاشقانِ کلامُ اللہ کی سات حکایات:

{۱}ہمارے امامِ اعظم سیِّدُناامام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رَمَضانُ الْمبارَک میں 61 بار قراٰنِ کر یم خَتْم کیا کرتے۔ تیس دن میں ، تیس رات میں اور ایک تراویح میں نیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے 45 برس عشا کے وُضو سے نمازِ فجر ادا فرمائی۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۶۸۸، ۶۸۹،۶۹۵){۲}ایک روایت کے مطابق امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے زندگی میں 55 حج کئے اور جس مکان میں وفات پائی اُس میں سات ہزار بار قراٰنِ مجید خَتْم فرمائے تھے۔ (دُرِّمُخْتار ج۱ص۱۲۶، الخیرات الحسان ص ۵۰ ) {۳} میرے آقا ا علیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :’’امامُ الائمہ سیِّدُنا امامِ اعظم (ابو حنیفہ ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تیس برس کامل ہر رات ایک رَکْعت میں قراٰنِ کریمخَتْم کیا ہے۔‘‘ ( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ص۴۷۶) {۴}علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا ہے: سلف صالحین(رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن) میں بعض اَکابر دن رات میں دو خَتْم فرماتے بعض چار بعض آٹھ۔ {۵}میزان الشریعۃ اَز امام عبدُ الوہاب شعرانی (قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی) میں ہے کہ سیِّدی علی مَرْصَفِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے ایک رات دن میں تین لاکھ ساٹھ ہزارختم فرمائے۔( المیزانُ الشریعۃ الکبرٰی ج۱ص۷۹ ) {۶}آثار میں ہے ، امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰیشیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمبایاں پاؤں رِکاب میں رکھ کر قراٰنِ مجید شروع فرماتے اور دَہنا ( سیدھا)پاؤں رکاب تک نہ پہنچتا کہ کلام شریف ختم ہو جاتا۔( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۷ ص۷ ۴۷) {۷}بخاری شریف میں فرمانِ مصطَفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ حضرت سیِّدُناداوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرماتے اور اس سے پہلے کہ سواری پر زین کس دی جائے زبورشریف ختم فرما لیتے۔ ( بُخا ری ج ۲ص۴۴۷حدیث۳۴۱۷ملخّصاً )

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

وسوسہ اور اس کا علاج:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہو سکتا ہے کسی کووسوسہ آئے کہ ایک دن میں کئی بار بلکہ لمحہ بھر میں ختم قراٰنِ پاک یا ختم زَبور شریف کیسے ممکن ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی کرامات اور حضرت سیِّدُنا داوٗدعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکا معجزہ ہے اور معجزہ اور کرامت عادۃً محال ہوتے ہیں یعنی ان کا بطورِ عادت ظاہر ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دورانِ تلاوت حرف چبانا:

افسوس! آج کل دینی مُعاملات میں سستی کادَور دورہ ہے،عموماً تراویح میں قراٰنِ کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے!اب وُہی حافظ پسند کیا جاتا ہے جو تراویح سے جلد فارِغ کردے۔ یاد رکھئے ! تر اویح اور نمازکے علا وہ بھی تلاوت میں حر ف چبا جا نا حرام ہے۔ اگرتراویح میں حافظ صاحب پورے قراٰنِ کریممیں سے صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی۔بلکہ دورانِ نماز حرف چب جانے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جانے کی صورت میں وہ نماز بھی فاسد ہو جائے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حرف ’’چب‘‘ گیا یا دُرست ’’مخرج‘‘ سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیرپلٹ پڑیئے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسیترتیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا! تیزی سے نہ پڑ ھیں تو بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں ہمدردانہ مشورہ ہے، لوگوں سے نہ شر ما ئیں ،خدا کی قسم! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہااپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین ([1])کا خیا ل رکھنا لا زِمی ہے نیز مد،غنہ، اظہار، اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔ صاحبِ بہارِشریعت حضرت صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرما تے ہیں :’’فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قرا ء َت کرے اور تر اویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ’’مد‘‘ کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔ ‘ (بہار شریعت ج۱ص۵۴۷،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)

پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّلکی چو تھی آیت میں ارشا د ِربّا نی ہے:

وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجَمۂ کنزالایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

ترتیل سے پڑھنا کسے کہتے ہیں !:

میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’ کمالین علیٰ حاشیہ جلالین‘‘ کے حوالے سے ’’ ترتیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں : ’’قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۶ ۲۷)نیزفرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تراویح میں مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ )طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰) ’’مدارِکُ التَّنْزِیل‘‘ میں ہے: ’’قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ،حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،’’ تَرْتِیْلًا ‘‘اس مسئلے میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے لئے نہایت ہی ضَروری ہے۔‘‘

( مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹) ( ترتیل کے اَحکام جاننے کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد6صَفحہ 275تا282کامطالعہ فرمائیے)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تراویح کی اُجرت لینا دینا کیسا؟:

قراٰنِ کریمپڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قراٰنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے، اُلٹا حب جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا !اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو، طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لئے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو، تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ(یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت،اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا۔پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے: اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ ( بُخاری ج۱ص۶حدیث۱)

تلاوت و ذکر و نعت کی اُجرت حرام ہے:

میرے آقا اعلٰی حضرت،امامِ اہل سنت مولانا شاہ امام احمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی بارگاہ میں اُجرت دے کرمیت کے ایصالِ ثواب کیلئے خَتْمِ قرٰان و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سیمُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جوا باً ارشاد فرمایا: ’’ تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں ) کو بھیجیں گے؟گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت واَشد(یعنی شدید ترین جرم) ہے۔اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن(مقرر) کردیں ۔مَثَلاً پڑھوانے والا کہے: ’’میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کیلئے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ)جو کام چاہوں گا لوں گا۔‘‘وہ کہے : ’’میں نے قبول کیا۔‘‘اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر(یعنی ملازِم) ہوگیا، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)

تراویح کی اُجرت کا شرعی حیلہ:

اِ س مبارَک فتوے کی روشنی میں تراویح کیلئے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہوسکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کرکے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کیلئے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کیلئے( مَثَلاًرات8تا11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہوگا،تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تووہ ملازم ہو گئے ۔ اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگادیں کہ وہ تراویح پڑھادیاکریں ۔ یادرکھئے! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کیلئے بھی اِجارہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے،ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہومَثَلاًبس کاکرایہ،یابازارمیں بوری لادنے ، لے جانے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔یہ بھی ذِہن میں رکھئے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کیلئے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جائز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ،بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی، مَثَلاًہم آپ کو12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں۔اب بارہ ہزاردینے ہی ہوں گے۔ یاد رہے! مسجد کے چندے سے دی جانے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہئے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جاری ہے۔ہاں حافظ صاحب کومطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طے شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے۔جو حافظ صاحبان ،یانعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا ارتکاب نہ کریں۔میرے آقااعلٰی حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزاکچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتااُس کی کافی واہ !واہ! ہوتی ہے۔یہاں اپنے آپ کو حب جاہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے۔ ؎

مرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یاالٰہی (وسائل بخشش ص۱۰۵)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ختم قراٰن اور رِقت:

جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ،کوتاہیاں بھی ہوئیں ،دل جمعی بھی نہ رہی،اِخلاص میں بھی کمی تھی۔ صد ہزار افسوس !دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر سب کے خالق و مالک اپنے پیارے پیا رے اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا،ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ،نہ جانے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کیلئے میں زندہ رہوں گایا نہیں !اِس طرح کے تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہوسکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے،اگر کسی کی آنکھ سیمَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صدقے خدائے غفار عَزَّوَجَلَّ سبھی حاضرین کو بخش دے۔

لاج رکھ لے گناہ گاروں کی نام ر حمٰن ہے تِرا یارب!

عیب میرے نہ کھول محشر میں نام ستار ہے تِرا یارب!

بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل نام غفار ہے تِرا یارب!

تو کریم اور کریم بھی ایسا!

کہ نہیں جس کا دوسرا یارب! (ذوقِ نعت)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تراویح کی جماعت بدعت حسنہ ہے:

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا، چنانچہ صاحب قراٰن، مدینے کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: ’’جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمضان میں قیام کرے اُس کے پچھلے گناہ(یعنی صغیرہ گناہ) بخش دیئے جائیں گے۔‘‘([2]) پھر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح)فرض نہ کر دی جائے([3]) ۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے : امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں ) ماہِ رَمَضان المُبَارَککی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سیّد نا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوسب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا: نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ۔ یعنی’’ یہ اچّھی بدعت ہے۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! محبوبِ ر بِّ ذُوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا۔مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ سرکارِ عالمِ مدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحمت فرمادی تھی۔چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں ) کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔‘‘ ( مُسلم ص۵۰۸حدیث۱۰۱۷)

’’ کرم یانبی اللہ ‘‘کے بارہ حروف کی نسبت

سے12اچھے کام یعنی بدعاتِ حسنہ

اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا، قیامت تک اسلام میں اچھے اچھے نئے طریقے جاری کرنے کی اجازت ہے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّنکالے بھی جار ہے ہیں جیسا کہ {۱} امیرُ الْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود ’’اچھی بدعت‘‘ بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وِصال ظاہری کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جاری کریں وہ بھی بدعت حَسَنہ کہلاتا ہے {۲}مسجِد میں امام کیلئے طاق نما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےمسجدُ النَّبَوِی الشّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد( بد عتِ حَسَنہ) کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے {۳}اِسی طرح مساجِد پر گنبدومینار بنانابھی بعدکی ایجادہے،یہاں تک کہ مسجد الحرام کے مَنارے بھی سرکارمدینہ و صحابۂ کرام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دَور میں نہیں تھے {۴} ایمانِ مفصل {۵} ایمانِ مُجْمَل {۶} چھ کلمے اور ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام {۷}قراٰنِ کریم کے تیس پارے بنانا،اِعراب لگانا، ان میں رُکوع بنانا،رُموزِ اَوقاَف کی علامات لگانا۔ بلکہ نقطے بھی بعدمیں لگائے گئے،خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ {۸}احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا،اس کی اَسناد پر جرح کرنا،ان کی صحیح ، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ اَقسام بنانا {۹} فقہ ، اُصولِ فقہ و علم کلام {۱۰}زکٰوۃ و فطر ہ سکۂ رائج الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا {۱۱} اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفر حج کرنا {۱۲} شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ، شافعی، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادِری، نقشبندی، سہروردی اور چشتی۔

ہر بدعت گمراہی نہیں ہے:

ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱)کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار ۔ یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) (۲)شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالۃ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات)گمراہی ہے۔ (مسلم ص۴۳۰ حدیث۸۶۷)کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارَکہ حق ہیں ۔ یہاں بدعت سے مراد بدعتِ سَیِّـَٔہ (سَیْ۔یِ۔ئَ ہْ) یعنی بری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بری ہے جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والی ہو۔جیسا کہ دیگر احادیثِ مقدسہ میں اس مسئلے کی وضاحت موجود ہے، چنانچہ ہمارے پیارے پیار ے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ہروہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہ ہو، تو اُس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اُس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے، اُسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا۔‘‘( تِرمذی ج ۴ ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶) بخاری شریف میں فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَد۔‘‘ (بخاری ج۲ص۲۱۱حدیث ۲۶۹۷) یعنی ’’جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اُس(کی اصل) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔‘‘ ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنت سے دُور کرکے گمراہ کرنے والی ہو، جس کی اَصْل دین میں نہ ہووہ بدعتِ سَیِّـَٔہ یعنی بری بدعت ہے، جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو یا جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحسنہ یعنی اچھی بدعت ہے ۔

حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیحدیثِ پاک،’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘ کے تحت فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعد سنت کے موافق اور اُس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔(اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)

بدعت حسنہ کے بغیر گزارہ نہیں:

اچھی اور بری بدعات کی تقسیم ضروری ہے کیوں کہ کئی اچھی اچھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صرف اس لئے ترک کر دیا جائے کہ قرونِ ثلاثہ یعنی (۱) شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان (۲) تابعینِ عظام اور(۳)تبع تابعینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَدوارِ پر انوارمیں نہیں تھیں ،تو دین کا موجود ہ نظام ہی نہ چل سکے، جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی،قراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعدمیں جاری ہوئے اور بدعت حسنہ میں شا مل ہیں ۔ربِّ مجیب عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا یہ سارے اچھے اچھے کام اپنی حیاتِ ظاہری میں بھی ر ائج فرما سکتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غلاموں کے لئے ثوابِ جاریہ کمانے کے بے شمار مواقع فراہم کر دئیے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں نے صَدَقۂِ جارِیہ کی خاطر جو شریعت سے نہیں ٹکراتی ہیں ایسی نئی ایجادوں کی دھوم مچا دی۔ کسی نے اذان سے پہلے دُرُو د و سلا م پڑھنے کا رَواج ڈالا ، کسی نے عید میلاد النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منانے کا طریقہ نکالا پھر اس میں چراغاں اور سبز سبز پرچموں اور مرحبا کی دھومیں مچاتے جلوسِ میلاد کا سلسلہ ہوا،کسی نے گیارھویں شریف تو کسی نے اَعراسِ بزرگانِ دین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینکی بنیاد رکھ دی اور اب بھی یہ سلسلے جاری ہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی والوں نے سنتو ں بھرے اجتماعات وغیرہ میں اُذْکُرُوا اللّٰہ! (یعنی اللہ کا ذِکْر کرو!) اور صلُّوا علَی الْحبیب! (یعنی حبیب پر دُرود بھیجو !) کے نعرے لگانے کی بالکل نئی ترکیب نکال کر اللہ اللہ اور دُرُود و سلام کی پرکیف صداؤں کا حسین سماں قائم کر دیا ! اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو (وسائل بخشش ص۳۱۵)

سبز گنبد کی تاریخ:

سبز سبز گنبد جس کے دیدار کے لئے ہر عا شق کا دل بے قرارہوتااور آنکھ اشک بارہوجایا کرتی ہے یہ بھی بدعتِ حسنہ ہے کیوں کہ وہ سرکا رِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصا لِ ظاہری کے سینکڑوں برس بعد بنا ہے، اس کی مختصر اً معلو مات بھی حا صِل کر لیجئے :

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے روضۂ انور پر سب سے پہلا گنبد شریف ۶۷۸؁ ھ (1269؁ء) میں تعمیر ہوا اور اس پر زَرد(یعنی پیلا) رنگ کروایا گیا۔ پھر مختلف اَدوار میں تَغَیُّرو تَبَدُّل ہو تا رہا یہاں تک کہ ۸۸۸ ؁ ھ (1483؁ء) میں کالے پتھر سے نیا گنبد بنایا گیا اور اس پر سفید رنگ کروایا گیا، ۹۸۰؁ ھ (1572؁ء) میں انتہائی حسین گنبد بنایا گیا اور اُس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا۔ ۱۲۳۳؁ ھ (1818؁ء) میں از سر نواس کی تعمیر کی گئی۔ 1253ھ مطابق 1837ء میں اِسے سبز رنگ کردیا گیا۔ جواَلْقُبَّۃُ الْخَضْراء یعنی سبز گنبدکے نام سے مشہور ہوا۔اس کے بعد اب تک کسی نے اس میں ردو بدل نہیں کیا۔ ہاں سبز رنگ کو یہ سعادت ملتی رہتی ہے کہ وہ خدام کے ہاتھوں اُوپرپہنچ کر لِپَٹجاتا ہے ۔ گنبدخضرا جو کہ یقیناقطعاً بدعتِ حسنہ ہے وہ اب دنیا بھر کے مسلمانوں کا مرجع ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹاسکتی،جو اس کو عناداً(یعنی بغض کی وجہ سے) مٹانا چاہے گااِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّخود ہی مِٹ جائے گا۔

گنبد خضرا! خدا تجھ کو سلامت رکھے

دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں

اِن جیسے تمام نوایجاد نیک کاموں کی بنیاد وُہی حدیثِ پاک ہے جومسلم شریف کے حوالے سے ،صفحہ168 پر گزری جس میں فرمایا گیا ہے:’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اِس کا ثواب ملے گا اور اُس کا بھی جواِس کے بعد اس پر عمل کریں ۔‘‘([4])

دیدارِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عقائد و اعمال کی اصلاح اور ضروری معلومات کے حصول کی خاطر تبلیغ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے ۔ اس کی ایک ایمان افروزمَدَنی بہار سنئے اور جھومئے چُنانچِہ دعوت اسلامی کے تین روزہ بینَ الاقوامی سنتوں بھرے اجتماع (ملتان شریف) کے اختتام پر آگرہ تاج کالونی ( بابُ المدینہ کراچی) کا ایک مَدَنی قافلہ سفر کرتا ہوا ترکیب کے مطابق ایک مسجِد میں قیام پذیر ہوا ۔ شب کو جب سب سو گئے تو مَدَنی قافلے میں شریک ایک نئے اسلامی بھائی کی قسمت انگڑائی لے کرجاگ اٹھی اور ان کو خواب میں مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار ہو گیا !وہ بہت خوش ہوئے ، دعوت اسلامی کی حقانیت کے دل و جان سے معترف ہو کر مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو گئے۔

کوئی آیا پا کے چلا گیا کوئی عمر بھر بھی نہ پا سکا

مرے مولیٰ تجھ سے گلہ نہیں یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اچھوں سے محبت کے فضائل:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلے کی برکت سے ایک خوش قسمت اسلامی بھائی کو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہو گئی۔ مَدَنی قافلے میں سفر کرنے والے خوش نصیبوں کو اچھوں کی صحبت اور نیک بندوں سے مَحَبَّت کرنے کا بہترین موقع نصیب ہو جاتا ہے۔ رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اچھوں سے مَحَبَّت رکھنے کے آٹھ فضائل سنئے اور جھومئے:

’’محبتِ رسول‘‘ کےآٹھ حروف کی نسبت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے

محبت رکھنے کے متعلق 8 فرامین مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{1} اللہ تَعَالٰی قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں مَحَبَّت رکھتے تھے!آج میں اُن کو اپنے سائے میں رکھوں گا، آج میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ([5]){2} اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے:جو لوگ میری وجہ سے آپس میں مَحَبَّت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور آپس میں ملتے جُلتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں اُن سے میری مَحَبَّتواجب ہوگئی([6]){3} اللہ تَعَالٰی نے فرمایا: جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں مَحَبَّترکھتے ہیں اُن کیلئے نور کے منبر ہونگے، انبیا وشہدا اُن پر غبطہ( یعنی رشک ) کریں گے([7]){4}دو شخصوں نے اللہ کے لئے باہم مَحَبَّت کی اور ایک مشرق میں ہے دوسرا مغرب میں ، قیامت کے دن اللہ تَعَالٰی دونوں کو جمع کر ے گا اور فرما ئے گا:یہی وہ ہے جس سے تو نے میرے لیے مَحَبَّت کی تھی([8]){ 5} جنت میں یاقوت کے ستون ہیں ، اُن پر زَبرجد کے بالا خانے ہیں ، ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ کے لئے آپَس میں مَحَبَّت رکھتے ہیں ، ایک جگہ بیٹھتے ہیں ، آپس میں ملتے ہیں ‘‘([9]){6} اللہ کیلئے مَحَبَّت رکھنے والے عرش کے گِرد یا قوت کی کرسیوں پر ہوں گے([10]){7} جو کسی سے اللہ کے لیے مَحَبَّت رکھے اور اللہ کے لیے دشمنی رکھے اور اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے منع کرے اُ س نے اپنا ایمان کامل کر لیا([11]){8} دو شخص جب اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے باہم مَحَبَّت رکھتے ہیں ، اُن کے درمیان میں جدائی اُس وَقت ہوتی ہے کہ ان میں سے ایک نے کوئی گناہ کیا۔([12]) یعنی اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے جومَحَبَّت ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر ایک نے گناہ کیا تو دوسرا اس سے جدا ہو جائے۔ (تفصیلی معلومات کیلئے پڑھئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعتجلد3صَفحَہ576 تا579 )

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’ تراویح پڑھیں اور خداو رسول کی رحمتیں لوٹیں‘‘ کے

پینتیس حروف کی نسبت سےتراویح کے35 مَدَنی پھول

{۱}تراویح ہر عاقِل و بالغ اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کیلئے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)

{۲}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)

{۳}تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَ ت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا)اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)

{۴}تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )

{۵} وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔

{۶}مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (اَیضاًص۵۹۸)

{۷}تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (اَیضاً)

{۸}بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (اَیضاص۵۹۹)

{۹}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی)ہے۔(اَیضاً)ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنافرض ہے،ہرقعدے میں اَلتَّحِیَّاتُکے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری،پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذو تَسْمِیہبھی پڑھے ۔

{۱۰}جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)

{۱۱}بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۰۳)

{۱۲}تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے،اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا۔(عالمگیری ج۱ص۱۱۶) عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔ اس کا تفصیلی مسئلہ فیضان سنت (جلد اوّل)کے باب ’’پیٹ کا قفل مدینہ‘‘ صفحہ135 پر ملاحَظہ فرمالیجئے۔

{۱۳}نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔

{۱۴}بالِغکی تراویح( بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔

{۱۵}تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِمُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کیلئے کفایت کرے گا۔’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد10 صفحہ334 پر ہے: قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے۔ اورصفحہ335 پرہے:خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے۔

{۱۶}اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجئے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَسے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجئے، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا۔ (ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۱۷}ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط جَہر کے ساتھ( یعنی اُونچی آواز سے ) پڑھنا سنت ہے اور ہرسورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ(۱)سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۴،۶۹۵)

{۱۸}اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۱۹}امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ (اَیضاً)

{۲۰}الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتاہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصا ن نہ ہو، مَثَلاًتین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے۔

{۲۱}دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (اَیضاً)

{۲۲}تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے۔ (اَیضاً)

{۲۳}سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب(یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (اَیضاًص۱۱۷)

{۲۴} اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یااٹھارہ؟تودورَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (اَیضاً)

{۲۵}افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس ) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں ) ہو، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ (اَیضاً)

{۲۶}امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہبھی پڑھے ) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)

{۲۷}اگر مقتدیوں پر گِرانی(دشواری) ہوتی ہو توتشہدکے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ پر اکتفاکرے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)

{۲۸}اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

{۲۹}ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔

(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰، عالمگیری ج۱ص۱۱۵)

{۳۰} اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰،بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰) یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں :

سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ

{۳۱}بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعدپانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے،اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۵)

{۳۲}مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے۔سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے: وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ (ترجَمۂ کنزالایمان: اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳، غُنیہ ص۴۱۰) فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا توسجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کاانتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُپوری کئے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔

{۳۳}رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے،مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳ مُلَخَّصاً )

{۳۴} یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔

{۳۵}حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تراویح پڑھاتے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۶)

اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں نیک ،مخلص اور دُرُست قراٰنِ کریم پڑھنے والے حافظ صاحب کے پیچھے خشوع وخضوع کے ساتھ تراویح ادا کرنے کی سعادت نصیب کر اور قَبول بھی فرما۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کینسر کا مریض ٹھیک ہوگیا:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کابے حد کرم ہے۔ بارہا سننے میں آیا کہ ڈاکٹروں نے جن مریضوں کو لا علاج قرار دے دیا ان کا مَدَنی قافلوں میں خیر سے علاج ہوگیا! چنانچہ ماڑی پور (بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی نے ایک ایمان افروز مدنی بہار لکھ کر دی جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ہاکس بے ( بابُ المدینہ کراچی) کے مقیم ایک اسلامی بھائی جو کہ کینسر کے مریض تھے، انہوں نے تبلیغ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی

تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفرکی سعادت حاصِل کی۔ دورانِ سفر بے چارے کافی سہمے ہوئے اور مایوس سے تھے ۔شرکائے قافلہ ڈھارس بندھاتے اور ان کیلئے دعائیں بھی فرماتے ۔ ایک دن صبح کے وقت بیٹھے بیٹھے اچانک انہیں قے ہوئی اور اُس میں ایک گوشت کی بوٹی حلق سے نکل پڑی!قے کے بعد اُن کو کافی سکون مل گیا ۔ مَدَنی قافلے سے واپسی پر جب ڈاکٹروں سے رُجوع کیا اور دوبارہ ٹیسٹ کروائے تو حیرت بالائے حیرت کہ مَدَنی قافلے میں سفر کی برکت سے اُن کا کینسر کا مرض ختم ہو چکا تھا۔

اَلسر اور کینسر اب، یا ہو دردِ کمر چلئے ہمت کریں ، قافِلے میں چلو

دور بیماریاں ، اور پریشانیاں ہوں گی بس چل پڑیں ، قافلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۷)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تُوبُوااِلیَ اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد



[1] ۔۔۔ وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر)اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں۔

[2] ۔۔۔ صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹

[3] ۔۔۔ ایضاًحدیث۲۰۱۲

[4] ۔۔۔مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانکی کتاب مستطاب" جاء الحق وزھق الباطل" میں بدعات ا ور ان کی اقسام وغیرہ کے بارے میں مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔

[5] ۔۔۔صحیح مسلم ، ص ۱۳۸۸ ،حدیث ۲۵۶۶۔

[6] ۔۔۔المُؤَطّا ، ج ۲ ص ۴۳۹، حدیث ۱۸۲۸۔

[7] ۔۔۔سنن الترمذی ،ج ۴ ، ص ۱۷۴ ،حدیث ۲۳۹۷ ۔

[8] ۔۔۔شعب الایمان ،ج۶،ص۴۹۲ حدیث ۹۰۲۲۔

[9] ۔۔۔شعب الایمان ،ج۶،ص۴۸۷ ، حدیث ۹۰۰۲۔

[10] ۔۔۔المعجم الکبیر ج ۴ ص ۱۵۰ ،حدیث ۳۹۷۳۔

[11] ۔۔۔سنن ابی داو،د ، ج ۴ ، ص ۲۹۰ ، حدیث ۴۶۸۱۔

[12] ۔۔۔الادب المفرد ، ص ۱۰۹،حدیث ۴۰۱۔

Share