الوداع ماہِ رمضان

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

اَلْوَداع ماہِ رمضان

دُرُود شریف کی فضیلت:

سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے: ’’ جس نے مجھ پر ایک بار دُرُود ِ پاک پڑھا اللہ عَزَّوَجَلَّاُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے۔‘‘ (مُسلِم ص۲۱۶حدیث۴۰۸)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنا جائز ہے:

’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ کے ایسے اَشعار جن میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو اُن کا پڑھنا سننا مباح و جائز ہے،البتہ اس میں ثواب حاصل کرنے کیلئے اچھی نیت ضروری ہے اورجس قدر اچھی نیتیں زیادہ ہوں گی اُسی قدر ثواب بھی زیادہ ملے گا۔

’’رَمَضانُ المُبارک‘‘کے بارہ حروف کی نسبت

سے’’ الوداع ماہِ رَمضان‘‘ کے متعلق 12نیتیں

{۱}’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے سننے کے ذریعے وعظ و نصیحت حاصل کروں گا {۲} اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت، ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی اُلفت دل میں بڑھاؤں گا{۳} نیکیوں میں رغبت حاصل کروں گا{۴} گناہوں سے بچنے کا ذِہن بناؤں گا۔( یہ نیتیں اُسی صورت میں دُرُست ہوں گی جبکہ پڑھا جانے والا کلام شریعت کے مطابق ہو اور اُس میں وعظ و نصیحت وغیرہ شامل بھی ہو) {۵}رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخری گھڑی تک بارگاہِ الٰہی میں اپنی مغفرت کیلئے وقتاً فوقتاً گریہ وزاری کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (آہ!آہ!آہ!ایک فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّممیں یہ بھی ہے:’’محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی! ‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳۶۶حدیث۷۶۲۷))

واسطہ رَمضان کا یارب! ہمیں تو بخش دے

نیکیوں کا اپنے پلے کچھ نہیں سامان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۶} اس نیت سے’’ الوداع ماہ ِ رمضان ‘‘کے اجتماع میں شرکت کروں گا کہ نیکیوں کا جذبہ باقی رہے بلکہ مزید بڑھے۔ (کیونکہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَکمیں نیک لوگوں کے اندر نیکیوں کا جذبہ بڑھ جاتا ہے) {۷}بہت سے لوگ خوف ِ خدا کے سبب گناہوں سے رُک جاتے ہیں مگر افسوس! رَمَضان شریف جوں ہی رخصت ہوتا ہے بے عملی ایک بارپھربڑھ جاتی ہے اور نمازیوں کی تعدادمیں بھی کمی آجاتی ہے ،آہ! مسجدیں خالی خالی نظر آتی ہیں ، ان تصوُّرات کے ساتھ نہ صرف خود بھی بے عملی سے بچنے کی نیت سے بلکہ دوسروں کے متعلق دل میں کڑھن (یعنی دُکھ) رکھ کر سوزورقت کے ساتھ ماہِ رَمضان کواَلوداع کر کے اپنا خوفِ خدا بڑھاؤں گا {۸}آیندہ سال ماہِ رَمضان نصیب ہونے کی آرزو اور اُس میں خوب خوب نیکیاں کرنے کی نیَّت شامل رکھ کر رو رو کر اِس سال کے ماہِ رَمضان کو اَلوداع کروں گا {۹} تَشَبُّہ بِالصّٰلِحِین (یعنی نیک لوگوں سے مشابہت) اختیار کروں گا کہ سلَف صالحین(یعنی گزشتہ زمانے کے بُزرگانِ دین) رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنرَمَضانُ الْمبارَک کی جدائی پرغمگین ہوتے تھے {۱۰} خائفین(یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں ) کے اجتماع کی بَرَکات حاصل کروں گا(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اس طرح کے روح پرور اجتماعات دعوت ِ اسلامی میں دیکھے جا سکتے ہیں ){۱۱} اشعارکی صورت میں مانگی جانے والی دعاؤں میں شرکت کروں گا کہ الوداع کے بعض اشعار ،اصلاحِ اعمال ،خاتمہ بالخیر اور مغفرت وغیرہ کی دعا پر مشتمل ہوتے ہیں {۱۲} اللہ ورَسُولَ اور نیک اعمال کیمَحَبَّت میں رونے کی کوشش کروں گاکہ الوداع پڑھنے سننے والوں کو اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی مَحَبَّت میں عموماً رونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔جو علمِ نیت رکھتا ہے وہ مزید نیتیں بڑھا سکتا ہے۔

ہائے عطارِؔ بدکار کاہِل رہ گیا یہ عبادت سے غافل

اِس سے خوش ہو کے ہونا روانہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آمد رَمضان پر مبارک باد دینا سنت سے ثابت ہے :

مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اِس حصے : اَتَاکُمْ رَمَضانُ شَھْرٌ مُّبارَکٌ یعنی ’’رَمضان کا مہینا آگیا ہے جو کہ نہایت ہی با برکت ہے‘‘کے تحت ’’مراٰۃ‘‘ جلد3 صفحہ137 پر فرماتے ہیں :برکت کے معنیٰ ہیں بیٹھ جانا ،جم جانا۔ اِسی لیے اُونٹ کے طویلے کو مبارَکُ الْاِبِل کہا جاتا ہے کہ وہاں اونٹ بیٹھتے بندھتے ہیں ۔ اب وہ زیادتیِ خیر(یعنی بھلائی کا بڑھنا) جو آکر نہ جائے برکت کہلاتی ہے، چونکہ ماہِ رَمضان میں حسی(یعنی محسوس کی جاسکنے والی) برکتیں بھی ہیں اور غیبی برکتیں بھی، اِس لیے اس مہینے کا نام’’ ماہِ مبارَک‘‘ بھی ہے ۔رَمضان میں قدرَتی طور پر مومنوں کے رزق میں برکت ہوتی ہے اور ہر نیکی کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی آمد (یعنی آنے) پر خوش ہونا، ایک دوسرے کو مبارَک باد دینا سنت(سے ثابِت)ہے اور جس کی آمد(یعنی آنے ) پر خوشی ہونی چاہیے اُس کے جانے پر غم بھی ہونا چاہیے، دیکھو! نکاح ختم ہونے پر عورت کو شرعاً غم لازِم ہے، اسی لیے اکثر مسلمان جُمُعَۃُ الْوَداع کو مغموم اور چشم پر نم (یعنی غمگین ہوتے اور رو رہے) ہوتے ہیں اورخطبا (یعنی خطیب صاحبان) اس دن میں کچھ وَداعیہ کلمات (الوداع ماہِ رمضان سے متعلق کچھ جملے) کہتے ہیں تاکہ مسلمان باقی ( بچی ہوئی )گھڑیوں کو غنیمت جان کر نیکیوں میں اور زیادہ کوشش کریں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۳ص۱۳۷)

کوہِ غم عاشقوں پر پڑا ہے ہر کوئی خون اب رو رہا ہے

کہہ رہا ہے یہ ہر غم کا مارا اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دل غم رَمضان میں ڈوبنے لگتا ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی عظمتوں سے کون واقف نہیں ! اِس کے تشریف لانے پر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ، زندَگی کا انداز ہی تبدیل ہو جاتا ہے ، مسجِدیں آباد ہو جاتیں اورعبادت وتلاوت کی لذت بڑھ جاتی ہے،نیز سحرو اِفطار کی بھی اپنی اپنی کیا خوب بہاریں ہوتی ہیں !یہ ماہِ مبارَک خوب خوب بارِشِ رَحمت برساتا، مغفرت کی بشارت سناتا اور گنہگاروں کو جہنَّم سے آزادی دِلاتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں دنیا کی لاتعداد مساجد کے اندر بے شمار عاشقانِ رسول پورے ماہِ رَمضان شریف کا نیز ہزاروں ہزار عاشقانِ رسول آخری عشرے کا اعتکاف کرتے ہیں ،اعتکاف میں ان کی سنتوں بھری تربیت کی جاتی ہے ، انہیں نیکیوں کی رغبت اور گناہوں سے نفرت دلائی جاتی ہے،خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ اورعشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے خوب جام پینے کو ملتے ہیں ۔بہرحال کیا مُعْتَکِف اورکیا غیر معتکف، سبھی ماہِ رمضان کی برکتیں لوٹتے ہیں ۔ ماہِ رَمضان سے مَحَبَّت کے اظہار کا ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے، رخصت کے ایام قریب آنے پر بالخصوص مُعْتَکِفین عاشِقانِ رَمضان کا دل غمِ رَمَضان میں ڈوبنے لگتا ہے!

قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں

کلفت ہجر و فرقت نے ماراا َلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۱)

الفاظ و معانی: پارہ پارہ: ٹکڑے۔کلفتِ:رَنج،تکلیف۔ہجر و فرقت:جدائی۔

دل کو یہ غم کھائے جا تا ہے کہ آہ! محترم ماہ عنقریب ہم سے وَداع(یعنی رخصت) ہونے والا ہے ! افسوس ! مسجِد کے اِس پر کیف و روح پرور مَدَنی ماحول سے نکل کر ایک بار پھر ہم دُنیا کی جَھنجَھٹوں میں پھنسنے والے ہیں ،آہ!اب جلد ہی ہمیں غفلت بھرے بازار وں میں دوبارہ جانا پڑجائے گا ، ہائے ! ہم جلد بہت جلد اعتکاف کی برکتوں اور رَمَضانُ الْمبارَک کی رَحمتوں بھری فضاؤں سے جُدا ہو جائیں گے ! اِس طرح کی سوچوں کے سبب عاشِقانِ رَمضان کے دل غمِ رَمضان سے بھر جاتے ہیں ! ؎

تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا اور ذَوقِ عبادت بڑھا تھا

آہ! اب دل پہ ہے غم کا غَلبہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۱)

آنکھوں سے آنسوجاری ہو جاتے ہیں:

غفلت میں گزارے ہوئے ا یامِ رَمضان کا خوب صدمہ ہوتا ہے، اپنی عبادتوں کی سُستیاں یاد آتی ہیں ،دل پر ایک خوف سا چھا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہماری کوتاہیوں کے سبب ہمارا پیارا پیارا ربّ عَزَّوَجَلَّ ہم سے ناراض ہو گیاہو ! اللہ عَزَّوَجَلَّکی بے پایاں رحمتوں پر ٹکٹکی بھی لگی ہوتی ہے، خوف و رَجا یعنی ڈر اور اُمید کی ملی جلی کیفیات ہوتی ہیں ، کبھی رحمتوں کی اُمیدپر دل کی مرجھائی ہوئی کلی کھل اٹھتی اور رُخ پربشاشت(یعنی چہرے پر تازگی) کے آثارنمایاں ہوجاتے ہیں تو کبھی خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّکا غلبہ ہوتا ہے تو دل غم میں ڈوب جاتا ، چہرے پر اُداسی چھا جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ ؎

کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں نَذْر چند اشک میں کر رہا ہوں

بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)

الفاظ و معانی:حُسنِ عمل: نیکیاں ۔اَثاثہ:سرمایہ۔

کیا مری زندگی کا بھروسا:

عاشقانِ رمضان کو یہ احساس بالخصوص تڑپا کر رکھ دیتا ہے کہ رَمَضانُ الْمبارَک نے اگر چہ آیندہ سال پھر ضرورتشریف لاناہے مگرنہ جانے ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ! ؎

جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ تیری آمد کا پھر شور ہوگا

کیا مری زندگی کا بھروسا اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پہلے کے لوگوں کی دعا میں سارا سال یادِ رَمضان ہوتی!:

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :پہلے کے لوگ رَمَضانُ الْمبارَک سے قبل چھ مہینے رَمَضان شریف کو پانے کی اور رَمَضانُ الْمبارَک کے بعد چھ مہینے عباداتِ رَمضان کی قبولیَّت کی دعا کیا کرتے تھے۔ (لطائف المعارف لابن رجب ص۳۷۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عید کی چاند رات عاشقانِ رَمضان کے جذبات:

رَمَضانُ المبارَک کے آخری دنوں یا لمحوں میں ماہِ رَمضان سے مَحَبَّت کی وجہ سے کوئی عاشقِ رَمضان رنجیدہ ہو جائے،غمِ رَمضان میں روئے، ماہِ رَمضان غفلت میں گزار دینے کے صدمے سے آنسو بہائے تو یہ بھی ایک نہایت عمدہ عمل ہے اور اچھی نیّت پر یقینا وہ ثواب کاحقدارہے۔ بے شک رَمَضانُ المبارَک میں بے شمار گنہگار بخشے جاتے ہیں مگرہم نہیں جانتے کہ ہمارے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ! یقینا جو غافِل مسلمان ماہِ رَمَضان میں مغفِرت سے محروم ہوا وہ بہت زیادہ محروم ہواجیسا کہ ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں یہ بھی ہے : رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَنْ یُّغْفَرَ لَہٗ۔یعنی’’ اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رَمضان آئے پھر اُس کی بخشش سے پہلے ہی گزرجائے۔‘‘ ( تِرمذی ج۵ص۳۲۰حدیث۳۵۵۶)

میں ہائے! جی چراتا ہی رہا ربّ کی عبادت سے گزارا غفلتوں میں سارا رمضاں یارسولَ اللّٰہ!

میں سوتا رہ گیا غفلت کی چادر تان کر افسوس! خدارا !میری بخشش کا ہو ساماں یارسولَ اللّٰہ! (وسائل بخشش ص۶۷۹)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

غم رمضان کی ترغیب:

آج ( یعنی تادمِ تحریر) سے تقریباً 625سال پہلے گزرے ہوئے قاہرہ (مصر) کے صوفی بزرگ اور مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے مقیم، مبلِّغِ اسلام، سیِّدُنا شیخ شعیب حریفیش(حری۔فیش ) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 810ہجری)فرماتے ہیں : اے لوگو!تم ماہِ رَمَضان کی جُدائی میں غمگین ہوجاؤ !کیونکہ یہ ایسا موسِم ہے جس میں تم بارِشِ رَحمت اور دعاؤں کی قبولیت کی سعادت پاتے ہو۔ (الروضُ الفائق ص۴۰ مُلَخَّصاً)

جاں فِدا تجھ پہ نانائے حَسَنَین! قلب ہے غمزدہ اور بے چَین

دل پہ صدمہ بڑھا جا رہا ہے ہائے! تڑپا کے رَمَضاں چلا ہے (وسائلِ بخشش ص۶۸۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ماہِ رمضان کی جدائی میں کیوں نہ رویا جائے!:

سیِّدُنا شیخ شعیب حریفیش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے روزوں اور راتوں کے قیام(یعنی راتوں کی عبادت ) میں کیوں رغبت نہ کی جائے! اُس مبارَک مہینے پر کیوں حسرت نہ کی جائے جس میں بندے کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اوراُس بابَرَکت مہینے کی جدائی پر کیوں نہ رویاجائے جس کے تشریف لے جانے سے خوب نیکیاں کمانے کاموقع بھی جاتا رہتاہے۔ (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱)

خوب روتاہے تڑپتا ہے غمِ رَمَضان میں

جو مسلماں قَدر دان و عاشقِ رَمَضان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جُمُعَۃُ الْوَداع کے بیان میں جان دیدی(حکایت):

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ649 صفحات پر مشتمل کتاب، ’’حکایتیں اور نصیحتیں ‘‘ صَفْحَہ96تا 97 پردی ہوئی حکایت قدرے تصرف کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں ماہِ رَمَضان کے جُمُعَۃُ الوَداع کے روز حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی محفل میں حاضر ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ رَمضان شریف کے روزوں کی فضیلت، راتوں کی عبادت اور مخلصین یعنی خلوص کے ساتھ عبادت کرنے والوں کے لئے جواجر تیار کیا گیا ہے اُس کے متعلق بیان فرمارہے تھے اوریوں لگ رہاتھاگویا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بیان کے اثر سے ٹھوس پتھروں سے آگ ظاہر ہو رہی ہے۔بلاشبہاللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! (ایسا ہوسکتا ہے ) کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ- ۱،البقرہ:۷۴)

ترجَمۂ کنزالایمان: اورپتھروں میں توکچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں ۔

لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی محفل میں نہ کسی نے حرکت کی ، نہ ہی کسی نے اپنے گناہوں پرنَدامت کا اظہار کیا، جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے محفل کی یہ حالت ملاحظہ کی تو ارشاد فرمایا: اے لوگو! کیا اپنے عیوب (یعنی عیبوں )سے آگاہ ہو کرکوئی رونے والا نہیں ؟ کیایہ توبہ و استغفار کا مہینا نہیں ؟ کیا یہ عفوو مغفرت (یعنی معافی ملنے اور بخشے جانے )کا مہینا نہیں ؟ کیا اس ماہِ مبارَک میں جنت کے دروازے نہیں کھولے جا تے؟ کیا اس میں جہنَّم کے دروازے بند نہیں کئے جاتے؟ کیا اِس میں شیاطین کو قید نہیں کیاجاتا؟ کیا اِس ماہِ صیام (یعنی روزوں کے مہینے)میں انعام و اکرام کی بارِشیں نہیں ہوتیں ؟ کیااس بابرکت ماہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّتجلی نہیں فرماتا؟ کیا اس ماہِ مبارَک میں ہر رات بوقتِ اِفطار دس لاکھ گنہگار جہنَّم سے آزادنہیں کئے جاتے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس ثوابِ عظیم سے خود کو محروم رکھتے اور لباسِ مخالفت میں اِتراتے ہو (مطلب یہ کہ عمل نہیں کرتے اور گناہوں میں مصروف رہتے ہو)۔ ارشادِ ربّانی ہے:

اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵) ۲۷،الطور :۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: توکیایہ جادوہے یا تمہیں سوجھتانہیں ۔

(اس کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:)سب خدائے غفارعَزَّوَجَلَّکے دربار میں حاضر ہوکرتوبہ واستغفارکرو! تو تمام حاضرین بلند آواز سے گریہ وزاری کرنے اور رونے دھونے لگے، اِتنے میں ایک نوجوان روتا ہوا کھڑاہو گیا اور عرض کرنے لگا:’’یاسیِّدی!(یعنی اے میرے آقا!)ارشاد فرمایئے کیا میرے روزے مقبول ہیں ؟ کیا میرا(رمضان کی) راتوں کا قیام(یعنی راتوں میں عبادت کرنا) قبولیت پانے والے عبادت گزاروں کے ساتھ لکھا جا ئے گا؟ حالانکہ مجھ سے بہت سارے گناہ سرزدہوئے ہیں ، میں نے تواپنی تمام عمر نافرمانیوں میں برباد کردی ہے،آہ!میں عذاب کے دن سے غافل رہا۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ عَزَّوَجَلَّتجلی کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ اُس نے قراٰنِ کریم میں ارشادفرمایاہے:

وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ ۱۶،طٰہٰ:۸۲)

ترجَمۂ کنزالایمان: اوربیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جس نے تو بہ کی ۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاری کو یہ آیت ِ مبارَکہ پڑھنے کاحکم فرمایا:وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ ۲۵،اَلشُّورٰی:۲۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: اوروہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گنا ہوں سے در گزر فرماتاہے۔

اُس نوجوان نے سن کر ایک زور دار چیخ ماری اور کہا: ’’میری خوش نصیبی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکا اِحسا ن مجھ تک پہنچتا رہا لیکن اِس کے باوجود میں نافرمانیوں میں اضافہ کرتا رہا اورغلط راستے سے نہ لوٹا۔ کیا گزرے ہوئے وقت کی جگہ کوئی اور وقت ہو گاکہ جس میں اللہ تَعَالٰی درگزر فرمائے گا؟‘‘ پھر اُس نے دوبارہ چیخ ماری اور اپنی جان جانِ آفرِیں کے سِپُرد کر دی۔(یعنی وفات پا گیا) یہ حکایت نقل کرنے کے بعد صاحبِ کتاب فرماتے ہیں :

میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے فراق(یعنی جدائی) پر کیوں نہ رویاجائے اورعفوومغفرت کے مہینے کی رخصت پر کیوں نہ افسوس کیا جائے! اِس مہینے کی جُدائی پر کیوں نہ غم کیاجائے جس میں گنہگاروں کو جہنَّم سے آزادی نصیب ہوتی ہے! (اَلرّوضُ الفائق ص۴۵)

کر رہے ہیں تجھ کو رو رو کر مسلماں الوداع آہ! اب تو چند گھڑیوں کا فقط مہمان ہے

واسطہ رمضان کا یارب! ہمیں تو بخش دے نیکیوں کا اپنے پلّے کچھ نہیں سامان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ماہِ رَمضان کی آخری رات خوفِ خدا سے وفات(حکایت):

ماہِ رمضان عبادات و ریاضات میں گزارنے کے بعد آخری رات وفات پانے والی ایک نیک بندی کی حکایت ملاحظہ فرمایئے اوراِس میں سے اپنے لئے عبرت کے مَدَنی پھول تلاش کیجئے چنانچِہ حضرتِ سیِّدُنامحمدبن ابو فرج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مجھے ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ایک کنیز کی ضرورت پڑی جو ہمیں کھانا تیار کردے،میں نے بازارمیں ایک کنیز کو دیکھا، اُس کاچہرہ زَرد(یعنی پیلا)، بدن کمزوراورجلد(Skin) خشک تھی۔ میں اُس پرترس کھاتے ہوئے اُسے خرید کر گھر لے آیا اور کہا: برتن پکڑو اوررَمَضانُ الْمبارَک کی ضرور ی اشیا (یعنی چیزوں ) کی خریداری کے لئے میرے ساتھ بازار چلو۔ تو وہ کہنے لگی: اے میرے آقا! میں تو ایسے لوگوں کے پاس تھی جن کا پورا زما نہ ہی گویا رَمَضان ہوا کرتا تھا!(یعنی وہ لوگ رَمَضانُ الْمبارَک کے فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتے اور دن رات عبادات میں مشغول رہا کرتے تھے)۔اس کی یہ بات سن کر میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ضرور اللہ عَزَّوَجَلَّکی نیک بندی ہوگی۔ مَاشَآءَاللہ ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں وہ ساری ساری رات عبادت کرتی رہی اورجب آخری رات آئی تومیں نے اس کو کہا:عید کی ضروری اشیا خریدنے کے لئے میرے ساتھ بازار چلو۔تو وہ پوچھنے لگی:اے میرے آقا! عام لوگوں کی ضروریات خریدیں گے یا خاص لوگوں کی؟ میں نے اس سے کہا: اپنی بات کی وضاحت کرو!توکہنے لگی: ’’عام لوگوں کی ضروریات تو عید کے مشہور کھانے ہیں ، جبکہ خاص لوگوں کی ضَروریات مخلوق سے کَناراکَش ہونا، عبادت کے لئے فارغ ہونا، نوافِل کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّکاقرب حاصل کرنااوراُس کی بارگاہ میں عجزو انکساری کا اظہار ہے۔‘‘ یہ سن کر میں نے کہا: میری مراد کھانے کی ضروری اَشیاہیں ۔اُس نے پھر پوچھا:کون سا کھانا؟ جو جسموں کی غذا ہے وہ یا دِلوں کی؟تومیں نے کہا: اپنی بات واضِح کرو!تواُس نے مجھے بتایا:’’جسموں کی غذا تو کھاناپینا ہے جبکہ دلوں کی غذاگناہ چھوڑنا اوراپنے عیوب دُور کرنا، محبوب کے دیدارسے لطف اندوز ہونا اور مقصود کے حصول (یعنی مُراد پوری ہونے) پر راضی ہونا ہے لیکن یہ چیزیں حاصِل کرنے کے لئے خشوع، پرہیزگاری، ترکِ تکبُّر ، مالک و مولیٰعَزَّوَجَلَّکی طرف رُجوع اور ظاہر و باطن میں صِرف اُسی پر بھروسا کرنا ہے۔‘‘ پھر وہ کنیز نما ز کے لئے کھڑی ہو گئی، اُس نے پہلی رَکعت میں پوری سُوْرَۃُ الْبَقْرَہپڑھی، پھر سُوْرَۂ اٰلِ عِمْرٰن شروع کر دی، پھر ایک سورت ختم کر کے دوسری سورت شروع کرتی رہی یہاں تک کہ سُوْرَۃُ اِبْرٰاھِیْمکی آیت نمبر 17پر پہنچ گئی:

یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اورگلے سے نیچے اُتارنے کی اُمید نہ ہوگی اوراسے ہرطرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں اوراس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب۔

پھر وہ روتی ہوئی اِسی آیت کودہراتی رہی یہا ں تک کہ بے ہو ش ہو کر زمین پر گرپڑی جب میں نے اُسے ہلایا جلایا تو اس کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

دست بستہ التجا ہے ہم سے راضی ہو کے جا بخشوانا حشر میں ہاں تو مَہِ غفران ہے

السلام اے ماہِ رَمضاں تجھ پہ ہوں لاکھوں سلام ہِجر میں اب تیرا ہر عاشق ہوا بے جان ہے (وسائلِ بخشش ۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’اَلودَاع ماہِ رَمضان‘‘ کاشرعی ثبوت کیا ہے؟:

’’اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کے اشعار پڑھنا سننایقینا بہت عمدہ کام ہے ، یہ فرض یا واجب یا سنت نہیں بلکہ صرف مباح وجائز ہے۔اورمباح کام (یعنی ایسا عمل جس پر ثواب ملے نہ گناہ اس)میں اگر اچھی نیت شامل کر لی جائے تو وہ مستحب وکارِ ثواب بن جاتا ہے۔ لہٰذا ’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ بھی اچھے مقصد مَثَلاً گناہوں اور کوتاہیوں پر ندامت اور آیندہ نیکیوں بھرا رمضان گزارنے کی نیت سے پڑھنا سننا کارِ ثواب ہے۔اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’خطبۃُ الوداع‘‘ کے متعلق کئے جانے والے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :وہ( یعنی ’’ الوداع‘‘ کا خطبہ) اپنی ذات میں مُباح ہے، ہر مباح نیتِ حسن (یعنی اچھی نیت) سے مستحب ہو جاتا ہے۔ اورعروض و عوارِض خلاف(یعنی شرعی ممنوعات پر مشتمل ہو نے ) سے مکروہ سے حرام تک (جیسے مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ ہونا یا اسے یعنی الوداع کے خطبے کو واجب وضروری سمجھنایاعورتوں کا راگ سے اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز مردوں تک پہنچے یااَلوداع کے اَشعار کاخلافِ شرع ہونا )۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۸ ص ۴۵۲)بہرحال اَلْوَدَاع ماہِ رمضان کے کہنے کا موجودہ انداز نیا ہی سہی مگر شرعاً اس میں حرج نہیں ۔ یاد رہے! مباح کے کرنے یانہ کرنے پرملامت نہیں ہوتی ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے: ’’حلال وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی وہ مُعاف ہے۔‘‘

(تِرمذی ج ۳ ص ۲۸۰حدیث۱۷۳۲)

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اس حصے،’’جس سے خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔‘‘کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جن چیزوں کو نہ قراٰنِ کریم نے حلال یا حرام کہا نہ حدیثِ پاک نے یعنی ان کا ذِکر ہی کہیں نہیں وہ حلال ہیں ۔ یہاں ’’ مرقات([1]) ‘‘ اور ’’اَشِعَّۃُ اللَّمْعات([2]) ‘‘ اور ’’لمعات ([3]) ‘‘نے فرمایا کہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصل، اشیا میں اِباحت ہے یعنی جس سے قراٰن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔ آم، مالٹا یوں ہی پلاؤ زَردہ،فرنی،یوں ہی لٹھا ململ۔یوں ہی میلاد شریف و فاتحہ کی شیرینی سب حلال ہیں ،کیوں ؟اس لیے کہ انہیں قراٰن و حدیث نے حرام نہیں کیا، یہ اسلام کاکلی(یعنی اکثری )قانون ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۶ص۴۳)

اصل اشیا میں اِباحت ہے:

میرے آقا اعلٰی حضرت ، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے والد ماجد رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان لکھتے ہیں : اصل اشیا میں اباحت ہے یعنی جس عمل کے فعل وترک(یعنی کرنے اور چھوڑنے ) میں شرعاً کچھ حرج نہ پایا جائے وہ شرعاً مباح وجائز ہے۔(اُصُوْلُ الرَّشاد ص۹۹ مُلَخَّصاً)(اس قاعدے وضابطے:’’ اصل اشیا میں اباحت ہے‘‘ کی تفصیلات ’’اُصُوْلُ الرَّشاد‘‘ صفحہ 99 تا 116 پر ملاحظہ فرمائیے)

دین میں نئے اچھے طریقے نکالنے کی حدیث میں اجازت ہے:

’’اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کے اشعار پڑھنے سننے سے لوگوں کے دلوں پر چوٹ لگتی ، رَمَضانُ الْمبارَک کی اَھَمِّیَّت قلوب میں اُجاگر ہوتی، اپنی کوتاہیاں یاد آتیں اور گناہوں سے توبہ کرنے کا ذِہن ملتا ہے لہٰذا یہ ایک عمدہ انداز ہے۔ بے شک قیامت تک کیلئے دین میں اچھے اچھے طریقے ایجاد کرتے رہنے کی خود حدیثِ پاک میں اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے:جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اس کے بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیساثواب اس(جاری کرنے والے) کو بھی ملے گااور اُن(عمل کرنے والوں ) کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اس کے بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیسا گناہ اس (جاری کرنے والے)کوبھی ملے گا اور اُن(عمل کرنے والوں ) کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ ( مُسلم ص۱۴۳۸،حدیث۱۰۱۷)

عاشِقانِ ماہِ رَمضاں رو رہے ہیں پھوٹ کر دل بڑا بے چین ہے اَفسردہ روح و جان ہے

داستانِ غم سنائیں کس کو جا کر آہ! ہم یا رسولَ اللّٰہ! دیکھو چل دیا رَمضان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’الوداع‘‘ سننے سے توبہ و نیکی کاجذبہ ملتا ہے:

خلیفۂ امام احمد رضا خان،مفسِّرِ قراٰن،صاحِبِ تفسیر خزائن العرفان صدرُ الاْفاضِل حضرتِ علامہ مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی سے بھی ’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا جس کا جواب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اتنا خوب صورت دیا کہ اس کا ایک ایک لفظ اُمت کی خیر خواہی، نیکی کی دعوت کے جذبے ، مسلمانوں کی اصلاح وفَلاح کا درد اور احکامِ اسلامیہ کی حکمتوں پر مشتمل ہے اُس سُوال جواب کے بعض اِقتباسات مع خلاصہ ملاحظہ فرمایئے: سوال:رَمَضانُ المبارَک کے اَخیر جمعے کو خُطبۃُ الوَداعپڑھاجاتا ہے جس میں رَمَضانُ الْمبارَک کے فضائل و برکات کا بیان ہوتا ہے اور ا س ماہِ مبارَک کے رخصت ہونے اور ایسے بابرکت مہینے میں حسنات وخیرات (یعنی نیکیوں اور بھلائیوں ) کے ذخیرے جمع نہ کرنے پر حسرت و افسوس اور آیندہ کے لئے لوگوں کو عملِ خیر کی ترغیب اور باقی ایّامِ رَمضان میں کثرتِ عبادت کا شوق دلایا جاتا ہے، مسلمان اس خطبے کو سن کر خوب روتے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے اور آیندہ کے لئے نیکی کاعزم کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا کام جائز ہے یا نہیں ؟کیونکہ بعض لوگ الوداع پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔

جواب: صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نے اس خطبے سے منع کرنے والوں کے اعتراضات کا جواب دیا چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ : اِن منع کرنے والوں کے پاس ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ایک حدیث یا ایک فقہی عبارت اس کے عَدَمِ جواز (یعنی ناجائز ہونے) میں پیش کرسکتے ہیں ۔ مگرایسے لوگوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے اور خیال کودین میں داخل کر دیتے ہیں اور اپنے خیال سے جس چیز کو چاہتے ہیں نا جائز کر ڈالتے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : خُطبۃُ الوَداع آخر کس طرح ناجائز ہوگیا؟خطبے میں جو چیزیں شرعاً مطلوب ہیں (یعنی شریعت جو چیزیں چاہتی ہے) ان میں سے کونسی ان میں نہیں پائی جاتی؟ یا کون سا امر ممنوع (یعنی ایسا کام جسے اسلام نے منع فرمایا ہو وہ) اس میں داخل ہے؟ تذکیر (یعنی کوئی ایسی بات جس سے مسلمانوں کو نصیحت ہو)خطبے کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ رَمَضانُ الْمبارَک کے گزرے ہوئے اَیام (یعنی دنوں ) میں عملِ خیر (یعنی نیکیاں رہ جانے )پر حسرت و افسوس اور بابرکت ایّام کو غفلت میں گزارنے پر قلق وندامت (یعنی پچھتاوا) اور (اس مبارَک ) مہینے کی رخصتی کے وقت اپنی گزشتہ کوتاہیوں (یعنی گزری ہوئی سُستیوں ) کو مدنظر لا کر آیندہ کے لیے تَیَقُّظْ ( یعنی ہوشیاری) و بیداری اور مسلمانوں کو عملِ خیر کی تحریص وتشویق کا(یعنی نیکیوں پر ابھارنے کا)یہ بہترین طریقۂ تذکیر (یعنی نصیحت کا بہت اچّھا انداز ) ہے اور اِس (اندازِ ’’الوادعِ ماہِ رَمَضان‘‘) میں نہایت نافع و سود مند نصیحت و پَند (یعنی انتہائی مفید وعظ ونصیحت ) ہے، اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور انہیں سچی توبہ نصیب ہوتی ہے، بارگاہِ الٰہی میں اِستغفار کرتے ہیں ، آیندہ کے لیے عملِ نیک کامصمم (یعنی پکا)ارادہ کر لیتے ہیں ۔ اِس تذکیر (یعنی وعظ و نصیحت) کو فقہا نے سنت فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: (عَاشِرُہَا ) اَلْعِظَۃُ وَ التَّذْکِیرُ۔ یعنی ’’خطبے کی دسویں سنت پندو نصیحت (یعنی نیکی کی دعوت)ہے۔‘‘

(فتاویٰ صدر الافاضل ص۴۶۶ تا ۴۸۲)

صدرُ الافاضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فتوے سے حاصل ہونے والے 9مدنی پھول

٭رَمَضانُ المبارَک کے آخری دنوں میں الوداع پڑھنے سننے سے نیکیاں رہ جانے پر غم و افسوس ہوتا ہے جو کہ نہایت محمود یعنی پسندیدہ کام ہے اور ٭’’الوداع‘‘ رمضان شریف کے مبارک دِنوں کو غفلت میں گزارنے پر پچھتاوے کی ایک صورت ہے ٭ اِس سے گزری ہوئی سستیوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آیندہ کے لئے عملِ خیر یعنی نیکیاں کرنے کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اور ٭یہ الوداع مسلمانوں کے دل میں نیکیوں کی حرص اور لالچ پیدا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہی٭ اس انداز سے الوداع میں انتہائی مفید نصیحت ملتی ہی٭ الوداع سے سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے(دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں تو اس کا باقاعدہ مشاہدہ ہے بلکہ خود شرکت کرکے اِ ن برکات کا نظارہ کر سکتے ہیں ) اور بارگاہ ِ خداوندی میں رونا نصیب ہوتا ہے ٭ الوداع سے لوگ بارگاہِ الٰہی میں استغفار کرتے ہیں ٭ الوداع کی برکت سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آیندہ نیکیاں کرنے کا پکا ارادہ کر لیتی ہے(اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ بہت سے خوش نصیبوں کو اِس نیّت پر استقامت بھی مل جاتی ہے ) ٭خطبۂ جمعہ میں تذکیر یعنی وعظ و نصیحت کرنا سنَّت ہے اور خطبے میں الوداع پڑھنا اِسی سنَّت پر عمل کی ایک صورت ہے (یعنی موجود ہ ہیئت اگرچہ سنَّت نہیں لیکن اس کی اَصل ثابت ہے جو کہ تذکیر ہے اور تذکیر(یعنی وعظ و نصیحت) سنَّت ہے)

یادرہے ! صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی کا فتوی خطبۂ جمعہ میں الوداع پڑھنے کے متعلق ہے لیکن الوداع پڑھنے سننے کے جو فوائد وبرکات بیان ہوئے ہیں وہ اس خطبے کے علاوہ آخِری جمعے کی نماز کے بعد صلوٰۃ و سلام کے وقت اوریونہی رَمضان شریف کے آخری دِنوں میں بعد نمازِ عصر یا کسی دوسرے وقت پڑھنے سننے سے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔

خطب علمی میں اَلوداعی اشعار:

کسی دور میں ہند کے اندر خوب پڑھی جانے والی خطبوں کی کتاب ’’خطب علْمیؔ‘‘ میں نہایت حسرت کے ساتھ ماہِ رَمَضانُ الْمبارک کو الوداع کہا گیا ہے۔میرے آقا اعلٰی حضرت، مولانا شاہ امام احمد رضاخا ن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے ’’خطب علْمیؔ‘‘ کے مصنف کا تعارف ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’ مولانا محمد حسن علْمیؔ بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سنی صحیح العقیدہ اور واعظ و ناصح ( یعنی وعظ و نصیحت کرنے والے) اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے مداح (یعنی تعریف بیان کرنے والے) اور میرے جد امجدقُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز ( یعنی دادا جان حضرت مولانا رضاعلی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان)کے شاگرد تھے(فتاویٰ رضویہ ج۸ ص۴۴۷ ) حضرت مولانا محمد حسن عِلمیؔ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاپنے خطبوں کے مجموعے ’’خطب علمیؔ‘‘ میں ’’جمعۃُ الوداع‘‘ کے خطبے میں رَمَضانُ الْمبارَک کو ’’الوداع‘‘ کہتے ہوئے لکھتے ہیں : اَلْوَدَاعُ اَلْوَدَاعُ یَا شَہْرَ رَمَضَانَ ۔ فَتَحَسَّرُ وْاعَلٰی اِتْمَامِہٖ وَتَأَسَّفُوْاعَلٰی اِخْتِتَامِہٖ۔ اَلْوَدَاعُ اَلْوَدَاعُ یَا شَہْرَ رَمَضَانَ ۔(یعنی :الوداع الوداع اے ماہِ رمضان!(اے لوگو!) اس مہینے کے ختم ہونے پر حسرت وافسوس کرو!الوداع الوداع اے ماہِ رمضان!) اُنہوں نے اپنی اسی کتاب کے اندر اُردو میں بھی الوَداعی کلام شامل فرمایا ہے، اس کلام میں سے 12اشعار پیش کئے جاتے ہیں ، آپ بھی پڑھئے اورہو سکے تو غمِ رَمضان میں آنسو بہایئے:

افسوس تو رخصت ہوا ماہِ مبارک الوادع

افسوس تو رخصت ہوا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع روروکے دل نے یوں کہا: ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

مدت سے تھے ہم منتظر، شکر خدا آیا تُو پِھر پر حیف جلدی چل دیا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

دوزخ کے اندر بالیقیں ، تھا قید شیطانِ لعین مؤمن عذابوں سے بچا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

پڑھتا تھا سنت کوئی جب، یا کوئی پڑھتا مستحب پاتا ثواب اِک اَجر کا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

جو فرض ادا تجھ میں کرے، اَجر اُس کو ستر کا ملے تھا یمن ورحمت سے بھرا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

عاصیِ روزہ دار پر، پہنچے گی جب نارِ سقر بن کر سپر لے گا بچا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

اب کوچ ہے پیش نظر، آنکھوں میں اَشک آتے ہیں بھر کرتا ہے دل آہ وبکا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

تو ماہ، اِستِغفار کا، اور طاعت غَفّار کا کچھ بھی نہ ہم سے ہوسکا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

گر زِیست ہے پھر پائیں گے، ورنہ بہت پچھتائیں گے تو اب ہے ر خصت ہو چلا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

رخصت سے ہے دل پر اَلم، فرقت سے جاں پر سخت غم شدت سے ہے رنج و عنا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

تعریف کیا کوئی کرے، خالی نہیں ہے فضل سے روز اور شب صبح و مسا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

علمیؔ نہ کی کچھ بندگی، ازبس کہ ہے شرمندگی

واحسرتا واحسرتا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

الفاظ و معانی:حیف: افسوس۔یمن :برکت ۔ نارِ سقر: دوزخ کی آگ۔ سپر:ڈھال ۔آہ و بکا: رونا دھونا ۔ زِیست: زندگی۔ پُراَلم : غمگین۔:فرقت:جدائی۔عنا: غم۔مسا: شام۔اَزبس: نتیجہ۔

خطبے کا ایک اَہم مسئلہ:

’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے:غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عر بی کے ساتھ دوسری زبان خطبے میں خلط کرنا(یعنی ملانا) خلافِ سنت متوارِثہ(یعنی ہمیشہ سے چلی آنے والی سنّت کے خلاف)ہے۔ یوہیں خطبے میں اَشعار پڑھنا بھی نہ چاہیے اگرچہ عر بی ہی کے ہوں ، ہاں دو ایک شعر پندونصائح کے اگر کبھی پڑھ لے تو حر ج نہیں ۔(بہار ِ شریعت ج۱ص۷۶۹) لہٰذا اردومیں الوداع یا کوئی سا بھی کلام پڑھنا ہو تو خطبے سے پہلے یا نماز کے بعد پڑھا جائے۔

’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ کی مدنی بہار:

بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی مَدَنی ماحول میں آنے سے پہلے عام لڑکوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ، نمازوں کی پابندی کا ذِہن نہیں تھا ، نہ اِسلامی حُلیے کی کوئی ترکیب تھی ۔ غفلتوں میں زندگی کے قیمتی لمحات ضائع ہورہے تھے ۔ 1999ء میں اُنہوں نے میٹرک کا امتحان دیا، اِس کے بعد اسکول کی چھٹیاں ہوگئیں ،اُنہی دِنوں ’’شبِ برائَ ت‘‘ کی تشریف آوری ہوئی اور اُن کے اپنے علاقے ’’ڈالمیا‘‘کے قریب ’’کنز الایمان مسجد‘‘ کا اِفتتاح ہوا، وہاں نمازِ مغرب کے فرض و سنّت کے بعد شَعبَانُ الْمُعَظَّم کے چھ نوافل بھی پڑھائے گئے، پھرماہِ رَمضانُ المبارک میں اِسی زیر تعمیر مسجد میں اُنہیں ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی طرف سے کئے جانے والے اجتماعی اعتکاف میں عاشقانِ رسول کے ساتھ اعتکاف کرنے کی سعادت بھی ملی، اِس اعتکاف کی برکت سے بہت سا علمِ دین سیکھنے کا موقع ملا اور آخری دن رُخصت ماہِ رَمضان کے موقع پر ’’اَلْوَداع‘‘ پڑھی گئی تو عاشقانِ رسول پر رِقت طاری تھی ،اُن پر بھی رِقت طاری ہوئی اور وہ کافی دیر تک روتے رہے، یہاں تک کہ اِسلامی بھائیوں نے اُنہیں کھانے کے لئے بٹھایا مگر اُن کی ہچکیاں جاری ہی تھیں ۔ پھر اُنہیں عمامہ شریف سجانے کاشرف ملا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن (تادمِ تحریر) وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہیں ، کئی مَدَنی قافلوں میں سفر اور مدینۃ الاولیا ملتان شریف کے تین دن کے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت بھی ملی، تادم تحریر4 رجبُ المرجب 1438ھ چار سال سے مسجد کے اندرمنصب اِمامت پر بھی فائز ہیں ۔ جامعۃ المدینہ فیضان محمدی گلشن معمار(کراچی) میں عصری علوم یعنی ریاضی اور انگلش کی تدریس بھی فرما رہے ہیں ۔ اور(یہ الفاظ لکھتے وقت) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاُنہیں تین بار عالمی مَدَنی مرکز ’’فیضانِ مدینہ‘‘ میں اِجتماعی اعتکاف کی سعادت بھی نصیب ہوچکی ہے۔نیزتادم تحریر شعبۂ تعلیم (دعوت اسلامی) کی ڈویژن سطح کی ذمّے داری بھی حاصل ہے ۔



[1] ۔۔۔ مرقاۃ المفاتیح ج۸ص۵۷تحت الحدیث ۴۲۲۸۔

[2] ۔۔۔ اشعۃ اللمعات ج۳ص۵۴۰۔

[3] ۔۔۔ لمعات التنقیع ج۷ص تحت الحدیث ۴۲۲۸۔

Share