Musibat Par Sabr Ka Inam

February 13,2019 - Published 5 years ago

Musibat Par Sabr Ka Inam

صبر کا انعام

اللہ پاک کا ایک نیک بندہ کسی جنگل کی بستی میں رہا کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک گدھا، ایک مرغا اور ایک کتا تھا۔ مرغا صبح نماز کے لئے جگاتا، گدھے پر وہ پانی اور دیگر چیزیں لاد کر لاتا اور کتا اس کے مکان و سامان کی رکھوالی کیا کرتا۔ ایک دن مرغے کو لومڑی کھاگئی، گھر کے افراد اس نقصان پر پریشان ہوئے مگر اس نیک شخص نے صبر کیا اور کہا: ’’اللہ پاک جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘ چند دن بعد بھیڑئیے نے گدھے کو چیر پھاڑ ڈالا، اہلِ خانہ غمگین ہوئے لیکن اس نیک آدمی نے یہی کہا: ’’اللہ پاک جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘۔ پھر کچھ عرصے بعد کتا بیمار ہو کر مرگیا، اس پر بھی اس نے یہی الفاظ دہرائے: ’’اللہ پاک جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘ کچھ روز بعد دشمنوں نے جنگل کی اس بستی پر راتوں رات اچانک حملہ کردیا اور جانوروں کی آوازیں سن سن کر گھروں کا پتا لگایا اور مال و اسباب لوٹ کر سب گھر والوں کو قیدی بناکر لے گئے۔ اس نیک شخص کے گھر میں کوئی جانور تھا ہی نہیں جو بولتا، لہذا دشمن کو اندھیرے میں اس کے مکان کا پتا ہی نہ چل سکا اور اس طرح وہ اس آفتِ ناگہانی سے محفوظ رہا اور یوں صبر کے ساتھ ساتھ اس کا یقین مزید پختہ ہوگیا کہ ’’اللہ پاک جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘‘۔ (عیون الحکایات، ص121)

صبر کا مفہوم:

کسی خوشی، مصیبت، غم اور پریشانی کے وقت خود کو قابو رکھتے ہوئے اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا۔ حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: صبر کا مطلب خلافِ شرع چیزوں سے دوری اختیار کرنا، مصیبت و آزمائش سے بھرے لقموں کا نگلنا اور روزی روٹی کے معاملے میں فقر و فاقہ میں مبتلا ہونے کے باوجود بے نیازی کا اظہار کرنا ہے۔

قرآنِ پاک میں صبر کے فضائل:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿2﴾… اور اے محبوب تم صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ پاک ہی کی توفیق سے ہے۔ (پ14، نحل: 127)

﴿3﴾… جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا۔ (پ23، زمر:۱۰)

﴿4﴾… اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔ (پ2، البقرۃ:155)

اگر آپ کسی پریشانی سے دوچار ہیں اور آپ کے اردگرد مصائب و آلام کا بسیرا ہے تو گھبرائیے مت،اللہ کی رحمت پر نظر رکھیے اور صبر کے دامن مضبوطی سے تھام لیجئے کہ صابر کی بارگاہِ الہی میں قدر وعزت ہےچنانچہ:

حضرتِ سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ سےمروی کہ حضورنبی پاکصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ پاک اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اس پر آزمائشوں کی بارش برساتا ہے پھر جب وہ بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے: اے میرے رب! تو مالکِ کائنات ارشاد فرماتا ہے:’’میرے بندے! تو جو کچھ مجھ سے مانگے گا میں تجھے عطا فرماؤں گا۔ یا تو جلد ہی تجھے دے دوں گا یا اسے تیری آخرت کیلئے ذخیرہ کردوں گا۔‘‘(اَلْمَرَض وَالْکَفّارات)

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: قیامت کے دن جب اللہ پاک لوگوں کو جمع فرمائے گا تو کوئی پکارنے والا پکارے گا: صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ تو کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف جلدی جلدی دوڑیں گے، فرشتے ان سے ملیں گے اور کہیں گے: تم کون ہو؟ ہم تمہیں جنت کی طرف جلدی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ کہیں گے: ہم صبر کرنے والے ہیں۔ فرشتے کہیں گے: تم کس طرح صبر کیا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ پاک کی اطاعت پر صبر کرتے تھے اور اللہ کریم کی نافرمانی سے بچتے تھے۔

(الصبر و الثواب علیہ لابی الدنیا)

فضائلِ صبر بزبان شفیع محشر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:

﴿1﴾… اَلصَّبْرُ نِصْفُ الْاِیْمَان یعنی صبر نصف ایمان ہے۔)شعب الایمان)

﴿2﴾… جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ پاک پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔ (مجمع الزوائد)

﴿3﴾… مسلمان کو تھکاوٹ، مرض، رنج اور غم میں سے جو مصیبت پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چُبھتا ہے تو اللہ پاک اس کے عوض اس کے گناہ مٹا ديتا ہے۔ (صحیح بخاری)

بخار کی حالت میں صبر:

﴿4﴾… جو ایک رات بخار میں مبتلا ہو اور اس پر صبر کرکے اللہ پاک کی رضا پر راضی رہے تو اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اُس دن تھا جب اِس کی ماں نے اسے جَنا تھا۔ (شعب الایمان، ج۷، ص۱۶۷)

بینائی سے محرومی پر صبر:

اللہ کریم کا فرمان ہے:﴿1﴾… جب میں اپنے بندے کو آنکھوں کے معاملے میں آزماؤں پھر وہ صبر کرے تو میں اس کی آنکھوں کے عوض اسے جنت عطا فرماؤں گا۔ (صحیح بخاری)

﴿2﴾… اللہ پاک فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی آنکھیں دنیا میں لے لوں تو جنت کے علاوہ کوئی چیز اس کا بدلہ نہ ہوگا۔ (التر غیب والترھیب4، ص154)

صبر وہی قابلَ تعریف ہوتا ہے جو اچانک مصيبت پہنچنے پر کيا جائے کيونکہ بعد ميں تو طبعی طور پر صبر آہی جاتا ہے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے: صبر پہلے صدمے پر ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث:1283)

صبر کے متعلق اس کے علاوہ کئی آیات ، روایات اور واقعات موجود ہیں مگر طوالت سے بچتے ہوئے ہم اپنے مضمون کو خالقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہکے فرمان پر اختتام پذیر کرتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ٰہے:

اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی دُرودیں ہیں اوررحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔(البقرہ)

اللہکریم ہمیں ہر مصیبت وپریشانی اور دکھ وتکلیف پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کہ مطبوعہ کتاب’’جلد بازی کے نقصانات‘‘ اور ’’انتقال پر صبر کا طریقہ‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

Comments (0)
Security Code