Muharram Ul Haram aur Ghair Shari Rasomat

December 08,2018 - Published 5 years ago

Muharram Ul Haram aur Ghair Shari Rasomat

محرّم الحرام اور غیر شرعی رسومات!

جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا۔ اس وقت تک مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرزِ زندگی بالکل ہی سیدھا سادہ اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات و خرافات سے پاک صاف رہا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول کا اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے طریقہ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی بہت سی غلط سلط اور من گھڑت رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا، اور مسلمان ان مشرکانہ رسموں میں اس قدر ملوث ہو گئے کہ اسلامی معاشرہ کا چہرہ مسخ ہو گیا اور مسلمان رسم و رواج کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر خیرالقرون کی سیدھی سادھی اسلامی طرز زندگی سے بہت دور ہوگئے۔

چنانچہ خوشی و غمی، پیدائش و موت، ختنہ و شادی، بیاہ وغیرہ الغرض مسلمانوں کی جملہ تقریبات بلکہ ان کی زندگی و موت کے ہر مرحلہ اور موڑ پر نت نئی و غیر شرعی رسموں کی فوجوں کا اس طرح عمل دخل ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنی تقریبات کو باپ داداؤں کی ان روایتی رسموں سے الگ کر ہی نہیں سکتے اور یہ حال ہوگیا ہے ۔اس صورتحال کو کسی نے اس انداز سے بیان کیا .(جنتی زیور، صفحہ نمبر 1)

محبت خصومات میں کھو گئی یہ امت رسومات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی حقیقت خرافات میں کھو گئی

چند غیر شرعی رسم ورواج:

بدقسمتی سے لوگوں میں پائی جانے والی خرافات و غیر شرعی رسومات ان کے یومیہ، ماہانہ وسالانہ معمولات کا حصہ بن چکی ہیں اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان رسومات کی ادائیگی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری اس تحریر کا موضوع اسلامی سال کے پہلے بابرکت اور حرمت والے مہینے محرم الحرام میں پائی جانے والی خرافات و بدعات ہیں، جن کے سبب اس ماہ مقدس کی ناصرف بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ اسلامی اقدار کا کھل کر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے نیز ہمارے شہدائے اسلام بالخصوص شہدائے کربلا کی یاد منانے کی آڑ میں ایسے غیر شرعی کام سرنجام دئے جاتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

· تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا، تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا، بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر بھیک منگوانا۔

· مال کو ضائع کرنا، برتن پھوڑنا، دسویں محرم کو گھرمیں کھانا پکانے کو معیوب سمجھنا، خود کو فقیر بناکر بھیک مانگنا وغیرہ۔

· ماتم کرنا، کپڑے پھاڑنا، نوحے پڑھنا، رونا پیٹنا ، بطور سوگ سیاہ لباس پہنا، کالے بلے پہنا، نئے لباس کو برا سمجھنا وغیرہ۔

· ناچنا، کودنا، رقص کرنا، مرد و عورت کا ایک ساتھ مجالس و محافل میں بیٹھنا، جھوٹے واقعات بیان کرنا وغیرہ۔

· جھوٹی منتیں ماننا، امام قاسم کی مہندی نکالنا ، فضول کاموں میں لگ کر نمازیں ترک کردینا وغیرہ۔

· حضرت علی و حسنین کریمین یا دیگر بزرگوں کی تصاویر بنانا، ان کا حترام کرنا، ان کو حقیقت کا رنگ دینا وغیرہ۔

· محر م الحرام میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کو ممنوع اور باعث نحوست سمجھنا،حالانکہ بعض روایات کے مطابق حضرت علی اور سیدہ فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکا نکاح محرم الحرام میں ہی ہوا تھا۔

مذکورہ خرافات و بدعات یا اس طرح کی اور رسومات جو مسلمانوں میں رائج ہیں سب ناجائز و ممنوع ہیں ان سے بچنا ہر صورت لازم ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خرافات ہماری دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جائیں اور ہمیں علم بھی نہ ہو۔

محرم الحرام میں شادی کرنا کیسا؟

بعض لوگ محرم الحرام میں شادی کرنے کو برا تصور کرتے ہیں اور اسے بد شگونی (اپنے حق میں برا) قرار دیتے ہیں، اسی طرح دیگر جائز کاموں کو ناجائز سمجھنا یا غیر شرعی رسومات کا اچھا شگن سمجھنا یعنی اپنے حق میں بہتر جاننا ایسے لوگوں کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہرسول اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں جیسا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں،اللہتعالیٰ اسے توکل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴/۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)

ایک اور روایت میں ہے:جس نے بَدشگونی لی اور جس کے لیے بَدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔(یعنی ہمارے طریقے پرنہیں) (معجم کبیر، ۱۸/۱۶۲، حدیث۳۵۵)

امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کا مؤقف :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری حنفی علیہ الرحمہ سے سوال ہواکہ

(۱) بعض اہل سنت جماعت عشرہ ۱۰محرم الحرام کونہ تودن بھرروٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ (۲) ان دس دن میں کپڑے نہیں اُتارتے ہیں، (۳) ماہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں۔ (۴) ان ایّام میں سوائے امام حسن وامام حسین رضی اﷲتعالٰی عنہماکے کسی کی نیازفاتحہ نہیں دلاتے ہیں،آیا یہ جائز ہے یانہیں؟

الجواب: پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اورسوگ حرام ہے،اور چوتھی بات جہالت ہے ہرمہینہ ہرتاریخ میں ہرولی کی نیاز اورہرمسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم

اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ نے ایک سوال کے جواب میں محرم الحرام میں امام عالی مقام کے نام کا فقیر بن کر بھیک مانگنا یا اپنے بچوں کو فقیر بناکر بھیک منگوانے کو بھی ناجائز و حرام قراردیا ہے ۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۱۰۲)

معززقارئین!مذکورہ روایات سے یہ بات خوب سمجھ آتی ہے کہ جورسومات شریعت کے دائرہ میں ہیں انہیں کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ جو دائرہ شریعت سے باہر ہوں ان کا کرنا شریعت کو ناپسند بلکہ بعض اوقات ناجائز وحرام تک پہنچ جاتا ہے، مسلمان کو چیزوں پر نہیں بلکہ اللہکریم پر بھروسا رکھنے کا حکم ہے۔اسی طرح محر م الحرام کے حوالے سے جن فرسودہ رسومات وتوہمات کو بیان کیا گیا اللہپاک ہمیں ان سے کوسوں دور رکھے اور شہیدان کربلا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مزید معلومات حاصل کرنے کے لئےمکتبہ المدینہ کی مطبوعہ کتاب’’ اسلامی زندگی‘‘و’’بدشگونی‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

Comments (0)
Security Code