Hassan ul Hind Imam Ahmed Raza Khan Bator e Sha'ir

October 17,2018 - Published 5 years ago

Hassan ul Hind Imam Ahmed Raza Khan Bator e Sha'ir

حسان الھند امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بطور شاعر

نعت رسول مقبول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اردو کی دیگر اقسام سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ معظّم، محترم اور محبوب و پاکیزہ قسم ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں جا بجا اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرما کر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشا ہے۔ صحابہ کرام، ازواج مطہرات، اہل بیتِ اطہار، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، غوث، قطب، ابدال، اولیا، صوفیا، علما، شاعروں اور ادیبوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں اپنی عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ امام الکلام امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیہ تک جا پہنچتاہے۔

امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عظیم و نامور مفسر قرآن، جَلیلُ القدر محدث، بلند پایہ فقیہ اور عالمِ باعمل تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بہترین شخصیت نے تن تنہا وہ کارنامے انجام دیئے ہیں جو ایک انجمن اور تحریک بھی انجام نہيں دے سکتی۔ آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر و اشاعت اور سنت کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی۔ قدرت نے آپ کو دوسری علمی و روحانی صفات کے ساتھ عشقِ مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دولت سے بھی نواز رکھا تھا۔

ہندوستان میں نعتیہ شاعری کا آغاز:

ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے با ضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔ اردو زبان کے معرض وجود میں آتے ہی اردو میں نعتیہ شاعری کا آغاز ہوا۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، فخر دین نظامی، غلام امام شہید، لطف علی لطف بدایونی، کفایت علی کافی، کرامت علی شہیدی، احمد نوری مارہروی، امیر مینائی، بیدم شاہ وارثی، نیاز بریلوی، آسی غازی پوری، محسن کاکوروی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ امام احمد رضا خان بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تک پہنچا اور اردو نعت کا یہ نہ ختم ہونے والا مقدس سفر تا صبح قیامت جاری و ساری ہے۔ بلاشبہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ کے بعد انھیں بیسویں صدی کا اردو میں سب سے عظیم و ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جاسکتا ہے۔ زمانے نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو حسان الہند کے لقب سے نوازا ہے۔

حدائق بخشش:

حدائق بخشش امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نعتیہ دیوان ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے دونوں حصوں کی اشاعت 1996ءمیں ہوئی۔ اس مجموعے کے کچھ کلام فارسی اور عربی زبان میں بھی ہیں۔ حدائق بخشش کی نعتوں کا کئی علاقائی زبانوں سمیت انگریزی، عربی و فارسی میں منظوم ترجمہ بھی کیا گيا ہے اور کئی شروحات لکھی گئی ہیں۔ بہت سی نعتوں کی مشہور شعراء نے تضمین بھی کی ہے۔ نعتِ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لکھنا آسان نہیں بلکہ ایک دشوار ترین منزل ہے۔ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس عاشقِ خیرُ الاَنام کا نام ہے جس کی زندگی کا کوئی لمحہ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی سانس عشقِ رسول سے خالی نہیں۔

آپ کی شاعری کی خصوصیات:

حدائق بخشش آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے اور ایک ایسی متاع بے بہا ہے جس پر اردو کی نعتیہ شاعری ہمیشہ فخر کرے گی بلکہ یوں کہئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نعتیہ کلام نے اردو شاعری کو زبان بخشی۔ حدائق بخشش میں جہاں خوفِ خدا و عشقِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رنگ کی بھرپور آمیزش ہے، وہیں پیکر راشی، استعارہ سازی، تشبیہات، اقتباسات، فصاحت و بلاغت، حسنِ تعلیل و حسنِ تشبیب، حسنِ طلب و حسنِ تضاد، لف و نشر مرتب و غیر مرتب، تجانیس، تلمیحات، تلمیعات، اشتقاق، مراعاۃ النظیر وغیرہ صنعتیں بھی اپنا جلوہ بکھیر رہی ہیں۔ اس دیوان میں نعت کے ضروری لوازمات کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔(فن شاعری اور حسان الہند ص223)

امام احمد رضا خان بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعراء کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے صرف عصبیت کے تنگ حصار میں قید ہو کر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا اور اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین لا پرواہی کا ارتکاب کیا۔

امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو نعت رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے میدان میں اگر علامہ جامی کہیں یا امام بوصیری کہہ کر پکاریں یا حسان وقت کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا کلام دیگر شعراء کے مقابلے میں ممتاز نظر آتا ہے۔

بلا شک و شبہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک کمال شاعر تھے۔ آپ کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا۔ عربی و فارسی میں مہارت کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ الحاصل یہ کہ امام احمد رضا بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نعتیہ شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اشعار میں جہاں شعر ادب اور زبان و نعت کے تمام محاسن کو سمو دیتے ہیں، وہیں سید عالم محبوب اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وہ کمالات و فضائل جو قرآنی آیات و احادیث و آثار اور تفسیر و شروح کے سینکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، ان کو شعر کے دو مصرعوں میں سمیٹ کر اس طرح دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والا جھوم اٹھتا ہے اور بے اختیار پکار اٹھتا ہے:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں

نعتیہ کلاموں کی مقبولیت کے حوالے سے جو پذیرائی امام احمد رضا خان بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نعتوں کو ملی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر قابل ذکر نعت خواں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کلاموں سے اپنی آوازوں کو مزین کیا۔ کچھ نعتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ بقیہ کے لیےدعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ حدائق بخشش ملاحظہ فرمائیں۔

· مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام

· سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

· صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا۔

· واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا

· ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

· لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

· زمین و زماں تمہارے لیے، مکین و مکاں تمہارے لیے

· یا الہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

صنعات ِشعر کا استعمال:

عبدالستار ہمدانی صاحب نے اپنی کتاب فنِ شاعری حسان الہند میں حدائق بخشش کی دوسری بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس میں استعمال کی ہوئی تقریبا 31 صنعاتِ شعر کا ذکر کیا ہے۔ ان میں ایسی بہت سی صنعتیں بھی ہیں جن کی مثال اردو کے استاد شعراء حتی کے مرزا غالب کی شاعری میں بھی نہیں ملتی۔(فن شاعری اور حسان الہند ص54)

اہل فن کے تاثرات

کوثر نیازی:

بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جس کا نام تھا۔ ممکن ہے بعض پہلوؤں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عشق رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ (مملکت نعت کے فرماں روا امام احمد رضا بریلوی)

مولانا محمد علی جوہر:

امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس دور کے سب بڑے محقق، ادیب، شاعر اور مرد حق ہیں۔ بلاشبہ ایسی ہستیوں کا وجود ہمارے لئے مرہون منت ہے۔ ۔ (روزنامہ خلافت، بحوالہ طمانچہ ص 38)

پروفیسر رزق مرسی ابو العباس صاحب

الازہر یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے استاد پروفیسر رزق مرسی ابو العباس آپ کی عربی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں: امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عربی نہیں تھے لیکن جب آپ ان کی عربی شاعری پڑھیں گے تو آپ کو خوش گوار حیرت ہوگی کہ ان کے عجمی ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں عجمیت کا شائبہ نہیں پایا جاتا، اگر پڑھنے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ عجمی تھے تو انہیں عربی شاعر گمان کرے گا۔

امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مستقل طور پر شاعری نہیں کیا کرتے تھے مگر آپ کی شاعری کو ’’کلام الامام‘‘ اور آپ کو ’’امام الکلام‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا، تو سوچئے کہ اگر دنیائے نعت کا یہ بے تاج بادشاہ صرف شاعری کو ہی اپنا موضوع سخن بناتا تو شاعری کی کیا کیفیت ہوتی۔(امام احمد رضا امام نعت گویاں)

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم:

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بھائی مولانا حسن رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فن شاعری میں مشہور شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، جب مولانا حسن رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی چند نعتیں جمع ہو جاتیں تو اپنے بیٹے مولانا حسنین رضا خان کو دے کر اپنے استاد داغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ مولانا حسن رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا کچھ کلام لے کرمولانا حسنین رضا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ حسنین رضا خان صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے عرض کیا: والد صاحب کا کلام لے کر استاد داغ دہلوی کے پاس جارہا ہوں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس وقت وہ نعت پاک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں جس راہ چل دئیے ہیں کوچے بسا دئیے ہیں

ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہوگئے ہیں، ابھی مقطع نہیں لکھا ہے اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔چنانچہ

مولانا حسنین رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی پہنچے اور استاد داغ دہلوی سے ملاقات کرکے اپنے والد صاحب کا کلام پیش کیا۔ داغ دہلوی نے اس کی اصلاح کی، جب اصلاح کرچکے تو مولانا حسنین رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا کلام بھی پیش کیا اور کہا یہ کلام اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے چلتے وقت دیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھا کر لائیے گا۔ داغ دہلوی نے اس کو ملاحظہ کیا۔ مولانا حسنین رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: داغ دہلوی اس وقت نعت پاک کو گنگنا رہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ پڑھنے کے بعد داغ دہلوی نے فرمایا: اس نعت پاک میں تو کوئی ایسا حرف بھی مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں

پھر فرمایا اس میں مقطع نہیں تھا، لیجئے مقطع بھی ہوگیا، نیز اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خط لکھا کہ اس نعت پاک کو اپنے دیوان میں اسی مقطع کے ساتھ شامل کریں، اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں۔ (تجلیات امام احمد رضا)

سیر ت اعلیٰ حضرت کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب حیات اعلیٰ حضرت کا مطالعہ فرمائیں۔

Comments (0)
Security Code