Book Name:Ham Dartay Kiun Nahi?

(یعنی وہ ایسے نیک بندے ہیں جن کی راتیں گریہ وزاری کرتے گزرتی ہیں، جس کے سبب ان کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں اس کے باوُجُود جب صبح ہوتی ہے تو لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو سب سے بڑھ کر گناہ گار تصوُّر کرتے ہیں۔)

       لیکن افسوس ! ہماری حالت یہ ہے کہ ایک تو ہم نیک عمل کرتے نہیں اگرکوئی عمل کربھی لیں تو  کوشش یہ  ہوتی ہے کہ کسی طرح لوگ  مجھے دیکھ لیں  تاکہ میری  نیک  نامی ہو۔ یادرکھئے!  رِیاکاری کے ساتھ کیاجانے والا عمل ہرگز قابلِ قبول نہیں، لہٰذاہر نیک عمل سے پہلے اپنی نِیَّت پر اچھی طرح غور کرلینا چاہیے کہ اُس سے مقصود رَبِّ کریم  کی رِضا ہے یا ما ل و زَر کا حُصُول یا کوئی اور دُنیاوی فائدہ ؟  بد قِسمتی سے آج کل ہماری عِبادات سے اِخْلَاص رُخصت ہوتا جارہا ہے،نماز پڑھتے ہیں تو اس لئے کہ لوگ ہمیں   نمازی کہیں ۔صدقہ وخیرات کرتے ہیں تو اس لئے کہ لوگوں میں  ہماری سخاوت کے چرچے ہوں ۔  حج و عمرہ کرنے  کے بعد یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ مجھے حاجی صاحب  کہہ کر بلائیں ۔  گھر میں بات بات پر جھگڑا  کریں لیکن با ہر والوں سے حُسنِ اخلاق(Politely)  سے اس لئے پیش آتے ہیں کہ لوگوں میں  بااخلاق مشہور ہوجائیں ۔ یادرکھئے! جن   نیک کاموں کو  زِنْدگی بھر  ہم اپنے لیے توشۂ آخرت  اور نَجَات کا ذَرِیْعہ سمجھتے رہے ایسا نہ ہو رِیاکاری کی وجہ سے یہ سب  برباد ہوجائیں اور  قیامت کے دن حسرت وندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ آئیے!  رِیاکاری کی مذمت پر 2 فرامینِ مصطفےٰ سنئے اور اس باطنی مرض سے بچنے کی کوشش بھی کیجئے ، چنانچہ

1.ارشاد فرمایا:جنّت کی خُوشبو پانچ سو(500) برس کی مُسافت (یعنی دُوری)سے سُونگھی جاسکتی ہے مگر آخرت کے عمل سے دُنیا طلب کرنے والا اُسے نہ پاسکے گا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال ، حرف الراء الریاء، ۲/۱۹۰،جز۳،حدیث:۷۴۸۹)  

2.ارشادفرمایا:جو شہرت کیلئے عمل کرے گا،اللہ پاک  اُسے رُسْوا کرے گا، جو دِکھاوے کیلئے عمل کرے گا،اللہ پاک  اسے عذاب دے گا۔ (جامع الاحادیث للسیوطی،قسم الاقوال،۷/۴۴، حدیث:  ۲۰۷۴۰)