Book Name:Achi Niyat Ka Matlab
نہیں کہلائے گی (2): اللہ پاک کی رِضا کا اِرادہ: یعنی وہ کام کرنے سے مقصُود اللہ پاک کو راضِی کرنا یا اس کام کو عِبَادت بنانا ہو۔
اللہ پاک فرماتا ہے :
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹)
(پارہ:15،بنی اسرائیل:19)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
معلوم ہوا :عمل کا قبول ہونا 3 چیزوں پر مَوْقُوف ہے: (1): ایمان(یعنی عقائد درست ہونا ) (2): آخرت کا اِرادہ یعنی اچھی نیت (3): عمل کو اہتمام کے ساتھ اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنا ۔ ([1])
اچھی نیّت کے مُتَعَلِّق چند احکام
(1): ہرمُباح کام اچھی نیّت سے مُسْتحب ہو جاتا ہے۔ ([2]) مُباح کی تعریف: وہ کام جسے کرنا، نہ کرنا برابر ہو، نہ اس کا گُنَاہ ہو،نہ ثواب،جیسے: *کھانا*پینا*سونا وغیرہ(2): نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ وغیرہ عِبَادات میں نِیّت شرط ہے، یعنی بغیر نِیّت کے یہ عِبَادات درست ہی نہیں ہوں گی (3): وُضُو ، غسل، کپڑے پاک کرنا وغیرہ کام جو دوسری عبادات کا وسیلہ بنتے ہیں، اِن میں نِیّت شرط نہیں، یہ کام بغیر نِیّت کے بھی درست ہو جاتے ہیں، البتہ! ثواب نہیں ملتا۔ مثلاً؛کسی نے نِیّت کئے بغیر وُضُو کیا، وُضُو ہو جائے گا، ثواب نہیں ملے گا([3]) (4): گُنَاہ کا کام اچھی نِیّت سے اچھا نہیں ہوتا، گُنَاہ ہی رہتا ہے۔ ([4])