Book Name:Shan-e-Farooq-e-Azam

خواہی نہیں کرسکتا ، دوسروں کی نصیحت قَبول کرنے سے محروم رہتا ہے ، لوگوں کی غیبت میں مُبْتَلا  ہوجاتا ہے ،  تَکَبُّر کرنے والا انسان اپنا بھرم رکھنے کے لئے ہربُرائی کرنے پرمجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ۔ (احیاء العلوم ، ۳ / ۴۲۳)مزید فرماتے ہیں : تکبُّر کا اظہارکبھی تو انسان کی حَرَکات و سَکَنات سے ہوتا ہے ، جیسے(سامنے والے انسان کو گھٹیا اور اپنے آپ کو اس سے اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے)منہ پُھلانا ، ناک چڑھانا ، ماتھے پر بَل ڈالنا ، گُھورنا ، سرکوایک طرف جُھکانا ، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کربیٹھنا ، ٹیک لگا کر کھانا ، اَکَڑ کر چلنا وغیرہ اورکبھی گفتگوسےمثلاًكسی کویہ کہنا : (تم میرے سامنے کچھ بھی نہیں ہو) ، تمہاری یہ ہِمَّت کہ مجھے جواب دو؟ ‘‘۔ یوں مختلف کیفیات ، باتوں اور کاموں کے ذریعے   تَکَبُّر کا اظہار ہوسکتا ہے ، پھر بعض تَکَبُّر  کرنے والوں میں اِظہار کے تمام انداز پائے جاتے ہیں اور کچھ میں بعض ۔

 لیکن یاد رہے!یہ تمام باتیں اُسی وقت تَکَبُّر کے تحت آئیں گی جبکہ دل میں  تَکَبُّر موجود ہو ، صرف ان چیزوں کو   تَکَبُّر نہیں کہا جاسکتا ۔ (ماخوذ از احیاء العلوم ، ۳ / ۴۳۴)

یاد رکھئے! “ تکبُّر “ سے متعلق ضروری معلومات اور اس ہلاک کرنے والے مرض سے بچنے کے طریقوں کو جاننا  بھی فرض ہے ۔ ابھی ہم نے یہ بھی سُنا  کہ تکبُّر کس قدر ہلاکت والی بیماری ہے کہ جس بدنصیب کو یہ بیماری لگ جائے اُسے تباہی و بربادی کے کنارے پر لاکھڑا کرتی اور بالآخر دوزخ کا حق دار بنادیتی ہے ، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنے کمزور بدن پر ترس کھائیں اور دوزخ کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو ڈرائیں ، جب بھی نفس و شیطان کسی مسلمان کو معمولی جاننے اور غُرور و تکبُّر کا مظاہرہ کرنے پر اُبھاریں تو انسان کو اپنے ماضی ، اپنی اوقات اور اللہ پاک کی عطاؤں پر غور کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہم سب کو عاجزی اختیار کرنے اور تکبُّر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔  

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم