Book Name:Mujza-e-Meraaj Staeswen Shab 1440

مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو وہ زبان و کلام کا دَور تھا ، عرب کے لوگ بڑے فصیح و بلیغ(یعنی بڑی روانی کے ساتھ حسبِ موقع گفتگو کرنے والے )تھے اوراِنہیں اپنی زبان پربڑا ناز تھا۔ لیکن جب اُن کے سامنے بروزِ محشر اُمّت کی شفاعت فرمانے والے آقا، تمام بلاؤں سے بچانےو الے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآنِ پاک کی آیات تلاوت فرمائیں، تو وہ لوگ حیران ہو گئے، قرآنِ پاک کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئے   اور  ماننے پرمجبور  ہو گئے  کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے۔ خود اللہ پاک نے اپنے حبیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان میں  ایسی فصاحت و بلاغت(یعنی خوش بیانی)رکھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:

میں نِثار تیرے کلام پر، مِلی یُوں تو کِس کو زَباں نہیں

وہ سُخن ہے جِس میں سُخن نہ ہو، وہ بَیاں ہے جس کا بَياں نہيں

ترے آگے يوں ہيں دَبے لَچے، فُصَحا عَرَب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منہ میں زَباں نہیں، نہیں بلکہ جِسم ميں جاں نہیں

(حدائقِ بخشش، ص ۱۰۷-۱۰۸)

مختصر وضاحت: پہلے شعر کا مطلب ہے کہ اے پیارے آقا،مہمانِ خداصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ! دنیا میں زبان دانی اور قَادِرُالْکَلامیکامَلِکہ(یعنی بولنے پر مہارت) تو بہت سوں کو ملا ہے لیکن میں آپ کے کلام پر کیوں نہ قربان ہو جاؤں  کیونکہ آپ کی ہر بات ہی باکمال و بے مثال ہے۔ دوسرے شعر کا مطلب ہے کہ بڑے بڑے زبان دان، فصاحت و بلاغت(خوش بیانی) کے پیکر اور جن پر خطابت و شاعری بھی ناز کرتی  تھی،  ایسے لوگ جب مصطفےٰ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں  تو زبانیں بولنے سے معذور ہو جاتیں، یوں لگتا ہے  کہ منہ میں زباں ہے ہی نہیں ،  بلکہ ایسےمعلوم ہوتا جیسے