Book Name:Khudkshi Par Ubharny Waly Asbaab

      پیاری پیاری اسلامی بہنو!خود کشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے۔افسوس! آج کل خودکُشی کا رُجحان(رُجْ۔حان) بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔”ایک میڈیکل سینٹر “کے فراہَم کردہ اَعداد وشُمار کے مطابق1985؁  میں 35افراد نے خود کُشی کی تھی اور اس کی تعدادبڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2003؁ میں 930 افراد نے خود کُشی کی ۔ ان وارداتوں کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر کی عمر 16 سے 30سال کے درمیان تھی۔پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی رَپورٹ کے مطابِق6ماہ میں یعنی جنوری سے جون 2004؁ کے عرصے میں 1103افراد نے خودکُشی کی کامیاب اور ناکام کوشِشیں کیں۔(خود کشی کا علاج، ص۹) جبکہ ایک معتبر اور بین الاقوامی ادارے کے سروے کے بعد دیئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں،دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ (1.8)فی صد ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔(مختلف ویب سائٹ سے ماخوذ)    گناہوں کی کثرت اور اَحوالِ آخِرت کے مُعامَلے میں جَہالت کے سبب ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں خودکُشی کا رُجحان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابِق اگست 2004؁میں پاکستان میں خود کُشی کی 68وارِداتیں ہوئیں جن میں بابُ المدینہ کراچی کا پہلا نمبر رہا جبکہ دوسرا نمبر مدینۃُ الْاولیاء ملتان والوں کا آیا۔ اُسی اَخبار کے مطابِق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں خودکُشی کی ایک واردات ہوتی ہے۔(خود کشی کا علاج، ص۱۳)

      پیاری پیاری اسلامی بہنو!غور کیجئے! انسانوں سے بھری اس دنیا میں ہر چالیس (40) سیکنڈز بعد کوئی نہ کوئی بیچارہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گل کر لیتا ہے۔

       خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیسے ہوسکتا ہے۔ آئیے! خود