Book Name:Takabbur Ka Anjam Ma Musalman Ko Haqeer Jannay Ki Muzammat

تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب اس مُتکبّرشخص نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگاہ میں آنا جانا چھوڑ دیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : میں بھی ایسے شخص سے ملنا نہیں چاہتا،(4)اللہعَزَّ وَجَلَّ   کے نیک اور برگزیدہ بندے امیر و غریب،گورے کالے،حرفت(دستکاری) و پیشے (Professions)اور ذات پات کا لحاظ کئے بغیر تمام مسلمانوں سے اُخوّت و بھائی چارے کا سلوک کیا کرتے اور ہر مسلمان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  جیسی عظیم علمی و روحانی شخصیت نے ایک حجّام کو اپنی چارپائی پر بٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ اسی طرح کی عاجزی و انکساری سے بھر پور حسنِ سلوک سے مُتَعَلّق ایک واقعہ محدِّثِ اعظم پاکستان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا بھی ہے۔چنانچہ

دیہاتیوں کو نیچے نہ بیٹھنے دیا

مُحدِّث اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں دو دیہاتی(یعنی گاؤں دیہات کے رہنے والے) ایک مسئلہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے۔آپ اس وقت چارپائی پر جلوہ گر تھے، دیہاتیوں نے آپ کے علمی مقام کا پاس کرتے ہوئے زمین پر بیٹھنا چاہا، مگر آپ نے عاجزی کرتے ہوئے اُن دیہاتیوں کو اِصرار کرکے نہ صرف چارپائی پر بٹھایا بلکہ اپنی چارپائی کے سرہانے کی طرف بٹھایا۔ حکم کی تعمیل کیلئے انہیں آپ کے برابر بیٹھنا پڑا اور آپ نے ان کے مسئلے کا جواب مرحمت فرمایا۔  ([1])

آپ کے اخلاق  تھے ، خلقِ عظیم مصطفی    کیا  مبارک آپ کے کردار تھے   شیخ الحدیث

تھے مبلغ  آپ تکریمِ  شہ لولاک  کے       واصفِ  اصحاب  اور انصار تھے  شیخ الحدیث

 


 

 



[1] حیات محدّث اعظم،ص۱۹۳ بتغیر قلیل