Book Name:Aklaq-e-Mustafa Ki Jhalkiyan

اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا ۔([1])

ان کی سنَّت کا جو آئینہ دار ہے

 

بس وُہی تَو جہاں میں سمجھدار ہے

(وسائلِ بخشش،ص۴۷۲)

عِمامہ شریف  کی سنّتیں اور آداب

آئیے!شیخ طریقت، امیر اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ   کے رسالے163 مدنی پھول سے عمامہ باندھنے کی چند سنتیں و آداب سُنتے ہیں:

پہلےدو فرامین مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ملاحظہ ہوں:(1)جماعت اورعمامے کے ساتھ نَماز دس ہزار(10،000)نیکیوں کے برابر ہے۔([2])(2)عمامے کے ساتھ ایک جُمُعہ بغیر عمامے کے70 جُمعوں کے برابر ہے۔([3])٭عِمامہ قبلہ رُو کھڑے کھڑے باندھئے۔([4])٭عمامے میں سنّت یہ ہے کہ ڈھائی (2/1) گز سے کم نہ ہو، نہ چھ(6) گز سے  زیادہ اور اس کی بندِش گنبد نُما ہو۔([5])٭رومال اگربڑا ہو کہ اتنے پیچ آسکیں جوسرکوچھپالیں تووہ عمامہ ہی ہوگیا اور چھوٹا رومال جس سے صرف دو ایک پیچ آسکیں لپیٹنا مکروہ ہے۔([6])٭ عمامے کو جب از سرِ نو باندھنا ہوتو جس طرح لپیٹا ہے اسی طرح کھولے اورفوراً زمین پر نہ پھینک دے۔([7]) ٭اگرضرورتاً اُتارا اور دوبارہ باندھنے کی نیّت ہوئی تو ایک،ایک پیچ


 

 



[1] مشکاۃ الصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،۱/۹۷،حدیث:۱۷۵

[2] فردوس الاخبار،باب الصاد،ذکر الفصولالخ،۲/ ۳۱،حدیث :۳۶۲۱

[3] ابنِ عساکِر، ذکر من اسمہ عبدان،عبدان بن زرّین الخ،۳۷/۳۵۵

[4] کشف الالتباس فی استحبابِ اللباس، ص۳۸

[5] فتاویٰ رضویہ،۲۲/۱۸۶

[6] فتاویٰ رضویہ، ۷/ ۲۹۹

[7] فتاویٰ ہندیۃ،۵/۳۳۰