Book Name:Aklaq-e-Mustafa Ki Jhalkiyan

ہو،٭مُسافریا اجنبی آدَمی کے سخت کلامی بھرے سوال پربھی صبر فرماتے،٭کسی کی بات کو نہ کاٹتے، البتہ اگر کوئی حد سے  تجاوز کرنے لگتا تواُس کو منع فرماتے یا وَہاں  سے اُٹھ جاتے،٭ سادَگی کا عالم یہ تھا کہ بیٹھنے کیلئے کوئی مخصوص جگہ بھی نہ رکھی تھی،٭کبھی چٹائی پر تو کبھی یوں  ہی زمین پربھی آرام فرما لیتے، ٭کبھی قَہْقَہَہ(یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ دوسرے لوگ ہوں  تو سُن لیں) نہ لگاتے،٭صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان فرماتے ہیں:آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے(یعنی موقع کی مناسبت سے)۔ حضرت سَیِّدُنا عبدُاللہ بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں  نے رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ  مسکرانے والاکوئی نہیں  دیکھا۔([1])

یا الٰہی! جب بہیں  آنکھیں  حسابِ جُرم  میں

اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

(حدائقِ بخشش،ص۱۳۳)

شعر کی مختصر وضاحت:اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ! کل قیامت میں جب اپنے جرموں پر ہماری آنکھیں اشکبار ہوں تو اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مسکراتے ہونٹوں سے نکلنی والی مُبارک دُعاؤں کا صدقہ ہم گناہ گاروں کو بھی عطافرما دینا ۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اللہ تعالٰی اخلاقِ مُصْطَفٰے کے طفیل ہمیں بھی اچھے اَخْلاق سے آراستہ  کامل مسلمان بنائے اور تادمِ حیات دعوتِ اسلامی سے وابستگی نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!بیان کو اِختِتام کی طرف لاتے ہوئے سنّت کی فضیلت اور چند سُنّتیں اور آداب بَیان کرنے کی سَعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، مُصْطَفٰے جانِ رحمت، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنّت نشان ہے: جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی


 



[1] احترامِ مسلم،ص۲۸تا۳۰