Book Name:Madani Inamaat Rah e Nijaat

ہے کہ آپ روزانہ اپنے نَفْس کو مُخاطَب کر کے فرماتے:اے نَفْس! تُو اپنی حد میں رہ اور یاد رکھ !تجھے قبر میں بھی جانا ہے ، پلِ صِراط سے بھی گُزرنا ہے، دُشمن (یعنی آنکڑے)تیرے اِرد گِرد مَوْجُود ہوں گے جو تجھے دائیں بائیں کھینچیں گے ، اس وقت قاضی،رَبّ تَعَالٰی کی ذات ہو گی اور جیل ، جَہَنَّم ہو گی جبکہ اس کے داروغہ سَیِّدُنا مالک (عَلَیْہِ السَّلَام)ہوں گے، اُس دن کا قاضی(مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ) نااِنْصافی کی طرف مائل نہیں ہوگا اور نہ ہی داروغہ کوئی رِشْوَت قَبول کرے گا اور نہ ہی جیل توڑنا مُمکن ہوگا کہ تُو وہاں سے فِرار ہو سکے، قیامت کے دن تیرے لئے ہلاکت ہی ہلاکت ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ فِرِشْتے تجھے کہاں لے جائیں گے ، عزّت وآرام کے مقام جنّت میں یا حسرت اور تنگی کی جگہ جَہَنَّم میں، (یُوں آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فکرِ مدینہ کرتے رہتے )اس دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی چشمانِ مُبارک سے آنسو بھی بہتے رہتے۔([1])  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے بُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن میں فکرِ مدینہ کا جذبہ کس قدر کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا ،اُن مُبارک ہستیوں کے نزدیک فکرِ مدینہ(یعنی اپنا محاسبہ کرنے) کی کس قدر اہمیت تھی کہ ہر وقت اپنے اَعْمال کے بارے میں مُـتَـفَکِّر(فکرمند) رہتے کہ نہ جانے ہمارے یہ اَعْمالاللہعَزَّ  وَجَلَّ  کی بارگاہ میں مَقْبُول ہو کر ہماری مَغْفرت کا ذریعہ بنیں گے یا مَرْدُود ہو کر ہماری ہلاکت کا سبب ثابِت ہوں گے۔ذرا سوچئے کہ جب یہ مَقْبُولانِ بارگاہ اس قدر اِسْتِقامت کے ساتھ فکر ِمدینہ کِیا کرتے تھے تو ہم گُناہ گاروں کو فکرِ مدینہ کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔فکرِ مدینہ کرنے کی اِفادِیَّت اور نہ کرنے کے نُقْصان کا اندازہ اِس مثال سے لگایئے کہ جس طرح دُنیاوی کاروبار سے تَعَلُّق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی وقت کامیاب کاروباری بن سکتا ہے، جب وہ اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے کئی گُنا زیادہ نفع کمانے میں کامیاب ہوجائے اور اس کا اَصَل سرمایہ بھی مَحْفُوظ رہے ۔ اِس مَقْصَد کے حُصُول کے لئے وہ اپنے کاروبار(Business)میں حساب کتاب کو روزانہ ، ہفتہ وار ، ماہانہ یا سالانہ کی بُنْیاد پر


 

 



[1] حکایات الصالحین،ص ۵۰