تذکرہ حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ

ایک مرتبہ خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین حضرت سیّدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جمعہ کے دن مسجد نبَوی شریف کی جانب تشریف لارہے تھے کہ ایک مکان کے پرنالے سے خون مِلےپانی کے چند قطرے کپڑوں پر آگرے، (نمازیوں کی تکلیف کا خیال کرکے )آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس پرنالے کو گرانے کا حکم فرما دیا  پھر گھر تشریف لائے، کپڑے تبدیل کئے اور مسجد میں جاکر لوگوں کو نماز پڑھائی، نماز کے بعد ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض گزار ہوئے: آپ کے حکم سے میرے پرنالے کو گرا دیا گیا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری گردن پر سوار ہو کر اپنے دست ِمبارک سے لگایا تھا، یہ سُن کر حضرت عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ رونے لگے اور فرمانے لگے: آپ میری گردن پر سوار ہوکر اپنے پرنالے کو پھر اسی جگہ لگادیں، چنانچہ انہوں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کندھوں پر کھڑے ہوکر پرنالے کو اسی جگہ لگا دیا۔ ( طبقات ابن سعد،ج4،ص14 تا 15۔  تاریخ ابن عساکر،ج26،ص370)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ صحابیِ رسول جن کے کندھوں نے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں کا بوسہ لیا اور جنہیں حضرت عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے کندھوں پر سوار کیارحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا حضرت سیّدنا عباس بن عبدُالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما ہیں۔ حُلیہ مبارکہ :آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بارُعب، سفید رنگت اور لمبے قد کے مالک تھے (تاریخ الاسلام للذہبی،ج3،ص384) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آواز میں اتنی قوّت تھی کہ پوری طاقت سے کسی کو پکارتے تو آٹھ میل دور تک آواز پہنچ جاتی ۔ (تہذیب الاسماء،ج1،ص244) قبولِ اسلام: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  ابتدائے اسلام میں کفّارِ مکّہ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ جنگ ِبدر میں کفّار کی طرف سے شریک ہوئے اورمسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے مگر محققین کا قول یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ غزوۂ بدر سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے اور اپنے اسلام کو چُھپائے ہوئے تھے، کفارِ مکہ قومیت کا دباؤ ڈال کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زبردستی میدانِ بدر میں لائے تھے۔ چنانچہ غزوۂ بدر میں لڑائی سے پہلے حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ   عباس کو قتل مت کرنا کیونکہ کفّار ِمکّہ دباؤ ڈال کر انہیں جنگ میں لائے ہیں۔ (اسد الغابہ،ج3،ص163) چاندکو جھکتے دیکھا: ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت میں یوں عَرْض گزار ہوئے: یَارسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مجھے توآپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دِین میں داخِل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ آپ بچپن میں جُھولے میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اس کی جانب اشارہ کرتے تو جس طرف اِشارہ ہوتا چاند اسی طرف جھک جاتا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،ج 2،ص41) بڑا کون ہے؟ :سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس دنیا میں جلوہ فرما ہونے سے تین سال پہلے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیدائش ہوئی تھی لیکن اَدب کا عالَم یہ تھا کہ جب کبھی عُمْر میں زائد ہونے کی بات چل نکلتی اور کوئی آپ سے پوچھ لیتاکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمر میں بڑے ہیں یا آپ؟ تو جواب میں اپنے آپ کو عُمْر میں بڑا کہلوانا  پسند نہ فرماتے بلکہ یہ کلمات زبان پر لاتے کہ بڑے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں، میں تو پہلے پیدا ہوا ہوں۔ (مستدرک،ج4،ص382، رقم: 5450) اولاد: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دس بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔(تہذیب الاسماء،ج1،ص244) فضائل و مناقب: نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہت تعریفیں کرتے کہ لوگوں میں بہت سخی اور زیادہ صلۂ رحمی (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ)کرنے والے ہیں۔ (مسند احمد،ج1،ص392، حدیث:1610) ایک جگہ یوں فرمایا کہ جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے اِیذا پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا باپ کے قائم مقام ہوتا ہے۔ (ترمذی،ج 5،ص422، حدیث:3783) دَرو دیوار نے اٰمین کہی :رحمت ِعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر نوازشوں اور عطاؤں کی بارش کی ایک جَھلک اور ملاحظہ کیجئے چنانچہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ سے ارشاد فرمایا: کل میرے آنے تک نہ تو گھر سے باہر نکلئے گا اور نہ بچّوں کوکہیں بھیجئے گا مجھے آپ سب سے کچھ کام ہے۔ اگلے دن حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کے یہاں رونق اَفروز ہوئے تو حال اَحوال پوچھنے کے بعد فرمایا: ایک دوسرے کے قریب آجاؤ، جب سب قریب ہوگئے توانہیں اپنی چادر میں ڈھانپ لیا اور دعا کی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! یہ میرے چچا ہیں اور میرے والد کے قائم مقام ہیں، یہ سب میرے اہلِ بیت ہیں ا ن سب کو آتشِ دوزخ سے ایسے ہی چُھپادے جیسے میں نے اپنی چادر میں چُھپایاہے، اس پر سب نے آمین کہی یہاں تک کہ دروازے کی دہلیز اورگھر کی دیواروں سے بھی’’اٰمین اٰمین اٰمین کی صدا آنے لگی۔ (معجمِ کبیر ،ج19،ص263، حدیث:584) اِعزاز و اِکرام :صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوانحضرت سیّدنا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ  کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء،ج 1،ص244۔تاریخ ابنِ عساکر،ج26،ص372ملخصاً) چنانچہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بطورِ احترام آپ  کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے۔ (معجمِ کبیر،ج10،ص285، حدیث: 10675) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدل ہوتے اور حضرت سیّدنا عمر فاروق اور حضرت سیّدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالٰی عنہما  حالتِ سواری میں آپ کے پاس سے گزرتے تو بطور ِ تعظیم نیچے اتر جاتے یہاں تک کہ آپ وہاں سے گزر جاتے۔ ( استیعاب،ج2،ص360) حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیتے اور فرماتے : اے میرے چچا ! مجھ سے راضی رہئے گا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج26،ص372) ذمہ داری و پسندیدہ کام :اسلام لانے سے پہلے اور بعد میں بھی مکہ میں آنے والے حاجیوں کو آبِِ زمزم سےسیراب کرنے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ ذمہ داری بھی خوب نبھائی کہ کوئی بھی شخص مسجد حرام میں کوئی گالم گلوچ یا بے ہودہ کلام نہ کہے۔ (اسد الغابہ،ج3،ص163۔ الثقات لابن حبان،ج1،ص18) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  رضائے الٰہی کی خاطر غلام خریدتے اور انہیں آزاد کردیا کرتے تھے یہاں تک کہ آخری وقت میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے 70 غلاموں کو آزاد کیا۔ (طبقات ِابنِ سعد،ج4،ص22) وصال مبارک :بوقتِ وفات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو چند نصیحتیں کیں پھر اپنا رُخ کعبۃُ اللہ شریف کی جانب کرتے ہوئے کلمہ شریف پڑھا اور آنکھیں بند کرکے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ (تاریخ ابن عساکر،ج26،ص376) وصال کا اعلان ہوتے ہی بکثرت لوگ جنازۂ مبارکہ کے اردگرد جمع ہوگئے، خود بنو ہاشم کے لوگوں نے جنازۂ مبارکہ کو اس طرح گھیرلیاکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سپاہیوں کے ذریعے سے ان کو ہٹوایا اور نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ (طبقات ابن سعد،ج4،ص23) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وصال مبارک 88سال کی عمر میں سن 32ہجری ماہِ رجب یا رمضانُ المبارک میں جمعہ کے دن 12تاریخ کو ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتُ البقیع میں آرام فرمارہے ہیں۔ (استیعاب،ج2،ص361 تا 362) روایتِ حدیث :آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 35 ہے۔ (تہذیب الاسماء،ج1،ص244)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ باب المدینہ کراچی


Share