امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

اُمّتِ مُصطَفَوِیَّہ کے ہادی ورَہبر، ملّتِ اسلامیّہ کے ماتھے کےحسین جھومر، جانشینِ پیغمبر، عاشقِ اکبر،امیرُ المؤمنین حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا اصل نام عبد اللہ ، کنیت ”ابو بکر“ جبکہ لقب” صدّیق“ و” عَتِیْق“ ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ عامُ الفیل کے دو سال اور چند ماہ بعد مکۂ مکرمہ میں  پیدا ہوئے۔(تاریخ ابنِ عساکر،ج 30، ص19،446)

 حلیہ:آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا رنگ سفید،جسم دبلا اور رُخسار  کم گوشت والےتھے ،چہرۂ اقدس اور ہاتھ کے پشت کی رگیں واضح نظر آتی تھیں۔ (الریاض النضرۃ،ج1، ص82،تاریخ الخلفاء،ص25)

 آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قبولِ  اسلام سے  پہلے  نہ صرف کامیاب  تاجر تھے بلکہ اپنے عمدہ اَخلاق اور حسنِ معاشرت  کی وجہ سے اپنی قوم میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے، دیگر سردار مختلف اُمور میں آپ سے مشورے بھی کیا کرتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 30، ص36، ملخصاً) 16یا 18سال کی عمر میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبتِ بابرکت سے فیض یاب ہوئے، جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو فوراً نورِ ایمان سے اپنے سینے کو منور کرلیا، اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی عمر 38 سال تھی۔

 (فیضانِ صدیق اکبر  ،ص:40ملخصاً)

کمالات و فضائل: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ انبیا ومرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔(آزاد) مردوں میں سب سے پہلے ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ (ترمذی،ج5، ص411، حدیث: 3755) رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں17 نمازیں پڑھانے کا شرف بھی حاصل کیا ،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی نے سب سےپہلے قرآن شریف کو جمع کیا۔ (عمدۃ القاری،ج 13، ص534، تحت الحدیث: 4986) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خود بھی صحابی، والد بھی صحابی، بیٹے، بیٹیاں، پوتے اور نواسے بھی شرف ِصحابیت سے سرفراز ہوئے۔ (تاریخِ ابن عساکر،ج 30، ص19) یہ ایسے اِعزازات ہیں  جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوئے۔

اَخلاقِ کریمہ: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ذہانت و فطانت، علم و حکمت، نور ِ فراست، سنجیدگی و متانت ،قناعت و شجاعت ا ور صداقت میں بے مثال تھے۔ عشقِ رسول، خوفِ خدا ،تقویٰ و پرہیز گاری ، جاں نثاری ،ایثار وقربانی اور پارسائی میں اپنی مثال آپ تھے۔ سادگی، عاجزی، بُردباری، ایمانداری، نرم رَوی، رحم دلی، فیاضی اور غریب پروری آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اَخلاقِ حَسَنہ کا ایک حصہ ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مصیبت زَدوں کی غم خواری کرتے ، پریشان حالوں کی داد رَسی کرتے، بیماروں کی عیادت کرتے ، کسی کا انتقال ہوجانےپر اس کے گھر والوں سے تعزیت کرتے، ذاتی رقم ادا کرکے نَو مسلم(نئے مسلمان ہونے والے) غلاموں کوان کے ظالم آقاؤں  سے خرید کر آزاد کردیا کرتے تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب تلاوتِ قراٰن فرماتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رکھ پاتے اور زارو قطار رونے لگ جاتے۔ (شعب الایمان،ج1، ص493، حدیث:806) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایسے عمدہ اَوصاف اور بے داغ کردار  کے مالک تھے کہ قبولِ اِسلام سے پہلے  کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ ہی کبھی برے کاموں کے قریب گئے۔(ارشاد الساری،ج 8، ص370) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قبول ِاسلام کے بعد کسی نے پوچھا:  کیا آپ نے دورِ جاہلیت میں  شراب  پی تھی؟ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میں ہمیشہ اپنی عزت اور انسانیت کی حفاظت کرتا تھا جبکہ شراب پینے والے کی عزت وغیرت دونوں ضائع ہوجاتی ہیں۔(کنز العمال، جزء 12،ج6، ص220، حدیث: 35593 )

اِسلام کی مدد:آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اِسلام کی تبلیغ اور مدد و نصرت کے لئے کُھلے دل سے اپنا ذاتی مال خرچ کیا کرتے تھے۔ جس دن اسلام لائے، آپ کے پاس چالیس ہزار(40,000) درہم یا دینار تھے، وہ سب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے راہِ خدا میں خرچ کر دئیے۔ (الاستیعاب،ج3،ص 94) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اتنی مالی خدمت کی کہ زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے : مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابوبکر کے مال نے دیا ۔ (ابن ماجہ،ج 1، ص72، حدیث: 94)

غزوہ  بدر کا ہو یا اُحدکا ،معرکہ  حُنین کا ہو یا فتحِ مکہ کا ،جنگ تبوک کی ہو یا خندق کی ،واقعہ  صلحِ حدیبیہ اور بیعتِ رضوان کا ہویا معراج کی تصدیق کا،یا پھر ہجرتِ نبویہ کے ناقابلِ  فراموش حسین لمحات ہوں، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُونِس وغم گُسار اور وزیر و مُشیر بن کر ہر ہر موڑ پر جاں نثار ی اور وفاداری کا ثبوت دیتے چلے گئے۔(تاریخ ابن عساکر،ج30، ص15، وغیرہ)

خلافت:رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وصالِ ظاہری کے بعد تمام مہاجرین و انصار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور متفقہ طور پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو پہلا ”خلیفۃُالمسلین“ تسلیم کرلیا۔ (بخاری،ج 4، ص346، حدیث: 6830مفہوماً)

 آپ اپنے دورِ خلافت میں اسلام دشمن قوتوں   کے خلاف ڈٹے رہے ،نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے برسرِپیکار (جنگ پر آمادہ) ہوئے اور انہیں کیفرِ کردار (کئے کی سزا) کو  پہنچایا، اپنی حکمتِ عملی سے  نا پختہ ذہن رکھنے والے مرتد قبائل کی سر کوبی کی ،زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہادکا عَلَم (جھنڈا) بلند فرمایا اورانہیں شکست سے دوچار کیا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دورِ خلافت میں عراق و شام کے کئی شہر فتح ہوئے جن میں  اُردن، اَجنادِین، مقام ِحِیرَہ اور دَوۡمَۃُ الۡجَنۡدَل  کی فتوحات قابلِ ذکر ہیں ۔

حکایت:آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وقف کی چیزوں کے بارے میں بہت احتیاط فرماتے تھے، آپ نے اپنے استعمال کے لئے اونٹنی، کھانے کے لئے ایک بڑا پیالہ اور اوڑھنے کے لئے چادر لی ہوئی تھی، بوقتِ وصال آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان تینوں چیزوں کو حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس بھیجنے کی وصیت کی،چنانچہ حسبِ وصیت یہ تینوں چیزیں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس پہنچادی گئیں۔ (تاریخ الخلفاء،ص 60، ملخصاً)

وصال:دربارِ رسالت کے اس پیارے چمکتے دمکتے ستارے نے 22 جُمادَی الاُخریٰ 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 عیسوی پیر اور منگل کی درمیانی رات مغرب و عشا کے درمیان دارُ الفناء سے دارُ البقاء کی طرف کوچ فرمایا۔ بوقتِ وصال آپ کی عمر 63 سال تھی۔ (فیضانِ صدیق اکبر، ص468ملخصاً) جبکہ زبانِ مبارک کے آخری کلمات یہ تھے: اے پروَردگار! مجھے اسلام پر موت عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔ (الریاض النضرۃ،ج1، ص258)آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نماز ِجنازہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے پڑھائی۔

(طبقاتِ ابن سعد ،ج3، ص154)

 وصیّت کے مطابق  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے جَسَدِ مبارک کو رَوضَۂ محبوب کے سامنے لایا گیا اور عرض کی گئی :یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ابوبکر آپ سے اجازت کے طلب گار ہیں ، روضَۂ مُبارَکہ کا دروازہ کُھل گیا اور اندر سے آواز آئی: ”اَدۡخِلُوا الۡحَبِیۡبَ اِلٰی حَبِیۡبِہٖیعنی محبوب کو اس کے محبوب سے ملادو۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلوئے مبارک میں  سپردِ رحمت کردیا  گیا۔ (الخصائص الکبریٰ،ج 2، ص492 )


Share