تو نے اسلام دیا، تو نے جماعت میں لیا

روشن ستارے

تونے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا

*مولانا عدنان احمد عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

سب کو اسلام کا تم نے بخشا شرف

گِرتے پڑتوں کو پیارے اُٹھا کر چلے

پیارےنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری زبان سے نکلنے والی ہر بات پیاری اور نرالی ہے ، ہر دعا مقبول ہوجانے والی ہے۔  دعائے نبوی سے جن خوش نصیبوں نے ایمان پایا آئیے ان خوش بختوں کے 9ایمان افروز واقعات پڑھئے۔

  ( 1 ) عمر فاروق کا قبولِ اسلام : حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔  آپ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعا کی برکت ہے مختصر واقعہ کچھ یوں ہے : حضرت عمر فاروق اپنی بہن کے گھر پر تھے ، جب دل کچھ نرم ہوا تو کہنے لگے : مجھے  (حُضور پُرنُور )  محمدِ  ( مصطفےٰ )  کے پاس لے چلو۔  یہ سُن کر حضرت خبّاب  ( کوٹھری سے )  باہر نکلے اور کہنے لگے : مبارک ہو اے عمر ! میں امید  کرتا ہوں کہ تم ہی دعائے رسول ہو۔  جمعرات کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی تھی : الٰہی ! عَمرو بن ہِشام یا عمر کے ذریعہ سے اسلام کو عزت و غلبہ دے۔  [1] ( 2 ) والدۂ صدیق کی خوش نصیبی : ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! یہ میری والدہ  ( حاضرِ خدمت )  ہیں ان کا اپنے والدین کے ساتھ رویہ بہت اچھا ہے۔  آپ کی ذات بابرکت ہے آپ میری والدہ کو اسلام کی دعوت دیں اور اللہ کریم سے ان کے لئے دعا کیجئے ، نبیِّ کریم نے اُن کی والدہ کیلئے دعا کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہو گئیں۔  [2]   ( 3 ) حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کو ایمان ملا : حضرت ابو ہریرہ رضیَ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں ، میں ایک دن روتا ہوا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی : اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے ، حُضورِ اکرم نے دعا کی : اے اللہ ! ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایتِ اسلام سے نواز دے ، حُضور نبیِّ کریم  کی دعا لے کر میں خوشی خوشی وہاں سے نکلا جب گھر پہنچا تو والدہ نے دروازہ کھولا پھر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئیں۔  [3]   ( 4 ) ثقیف والے مسلمان ہوگئے : نبیِّ کریم کی ہمراہی میں اسلامی فوج نے طائف کا محاصرہ کیا ، شدید جنگ ہوئی اس جنگ میں 12 اَصحابِ رسول نے شہادت پائی ، ایک روایت کے مطابق 20 سے زائد اَیَّام محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہوا۔  اس موقع پر بعض انصار صحابہ عرض گزار ہوئے : یارسولَ اللہ ! قبیلہ ثقیف کے خلاف  ( یعنی بربادی )  کی دعا کر دیجئے ، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی : اے اللہ ! قبیلہ ثقیف کو ہدایت عطا فرما ، اس کے بعد نبیِّ کریم محاصرہ ختم کرکے واپس لوٹ آئے ، اللہ کریم نے اپنے محبوبِ کریم کی دعا کو قبولیت کا جامہ پہنایا لہٰذا قبیلہ ثقیف کا ایک وفد مدینے میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر ایمان کی دولت سے مالامال ہوگیا پھر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے لئے مسجدِ نبوی شریف میں ایک چھوٹا خیمہ لگوادیا۔  [4]   (5 ) قسمت چمک اٹھی : حضرت شیبہ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں  ( شوال سن 8 ہجری )  جنگِ حُنَین میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ شریک ہوا ، اللہ کی قسم ! میں نہ تو اسلام کی سربلندی کی خاطر اس جنگ میں شریک ہوا تھا اور نہ مجھے اسلام سے کوئی واقفیت تھی  ( جنگ میں شرکت کی وجہ یہ تھی کہ )  مجھےیہ اچھا نہ لگا کہ ہوازن قبیلے والے قریش پر چڑھائی کریں ، میں میدان میں حُضورِ اکرم کے ساتھ کھڑا تھا ، میں نے رحمتِ عالَم سے عرض کی : میں ایک چتکبرے گھوڑے پر ایک سوار کو دیکھ رہا ہوں۔  فرمانِ رسالت ہوا : کیا تم اس کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں ! ارشاد ہوا : اس گھڑ سوار کو صرف کافر دیکھ سکتا ہے ، پھر رحمتِ عالَم نے میرے سینے پر تین مرتبہ اپنا دستِ اقدس مارا اور ہر مرتبہ یہ دعا کی : اے اللہ ! شیبہ کو ہدایت دے ، حضرت شیبہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! نبیِّ رحمت نے اپنا ہاتھ تیسری مرتبہ میرے سینے سے نہ ہٹایا تھا کہ مجھے مخلوقِ خدا میں سب سے بڑھ کر حُضورِ انور سے محبت ہوگئی۔  پھر میں نے اسلام کے سچے مذہب ہونے کی گواہی دی اور مسلمان ہوگیا۔  [5]   ( 6 ) قبیلۂ دَوس کے لئے دعا : ایک مرتبہ حضرت طفیل بن عَمرو دَوسی رضیَ اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی : قبیلۂ دوس نے  (اسلام لانے سے )  انکار کردیا ہے ، آپ اس کی بربادی کی دعا کردیں ، لوگوں نے گمان کیا کہ اب قبیلۂ دوس کی ہلاکت کی دعا کردی جائے گی ، لیکن زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوئے : اے اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا کر اور ان لوگوں کو  ( مہاجر بناکر مدینے )  لے آ۔  [6]  حضرت طفيل نے اپنے علاقے میں جاکر تبلیغِ دین شروع کردی ، غزوۂ بدر و معرکۂ اُحد کا واقعہ رونما ہوگیا ، جنگِ خندق بھی گزر گئی ، یہاں تک کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 7ہجری ماہِ صفر میں غزوۂ خیبر میں مصروف تھے کہ حضرت طفیل اپنے قبیلے کے 70 یا 80 افراد کو لے کر مدینے حاضر ہوگئے۔  آنے والوں میں حضرت ابو ہریرہ بھی شامل تھے۔  [7]   ( 7 ) یہودی کو ہدایت مل گئی : ایک یہودی بارگاہِ رسالت میں بیٹھا ہوا تھا نبیِّ رحمت کو چھینک آئی ، یہودی نے کہا : یَرْحَمُکَ اللہ  ( یعنی اللہ آپ پر رحم کرے )  نبیِّ کریم نے اسے دعا : ھَدَاکَ اللہ  ( یعنی اللہ تجھے ہدایت دے )  پس وہ یہودی اسلام لے آیا۔  [8]   ( 8 ) تیرے صدقے ایمان ملا : ایک مرتبہ نبیِّ کریم نے حضرت علاء بن حضرمی رضیَ اللہ عنہ کو ایک مہم پر روانہ فرمایا واپسی میں ان کا یَمامہ سے گزر ہوا تو وہاں کے سردار ثُمامہ بن اُثال نے ان کو روک لیا اور پوچھا : تم محمد  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کے قاصد ہو؟ آپ نے کہا : ہاں ! سردار نے کہا : تم اپنے نبی تک کبھی نہیں پہنچ سکو گے ، یہ دیکھ کر سردارِ یمامہ کے چچا عامر بن سلمہ نے کہا : کیا تمہارا اس شخص سے کوئی  ( لڑائی جھگڑےکا )  معاملہ ہے؟  ( جو اس مرد کے ساتھ یہ سلوک کروگے ، اس کے بعد حضرت علاء بن حضرمی کو آزاد کردیا گیا۔  )  نبیِّ کریم  ( تک یہ خبر پہنچیتو آپ )  نے یہ دعائیہ کلمات کہے : اے اللہ ! عامر کو نورِ ہدایت سے منور کر ، اور ہمیں ثُمامہ پر قدرت و غلبہ عطا فرما۔  نبیِّ رحمت کی اس دعا نے بھی قبولیت کا جامہ پہنا اور حضرت عامر بن سلمہ ایمان لے آئے اور سردارِ یمامہ کو قیدی بناکر بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا گیا ( بعد میں سردارِ یمامہ حضرت ثُمامہ اسلام لاکر مرتبۂ صحابیت پر فائز ہوئے ) ۔  [9]   ( 9 ) بچی پر شفقت : حضرت رافع بن سنان رضیَ اللہ عنہ اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے مگر بیوی مسلمان نہ ہوئی ، ان کی ایک بچی تھی ، کافر ماں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : بچی میری ہے ، والد حضرت رافع بن سنان نے بھی یہی کہا : یہ بچی میری ہے۔  نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچی کی ماں کو ایک کنارے پر بٹھایا اور والد کو دوسرے کنارے پر بٹھایا اور بچی کو بیچ میں بٹھا دیا ، پھر ارشاد فرمایا : تم دونوں اس بچی کو بلاؤ۔   ( دونوں نے بچی کو آواز دی تو )  بچی اپنی کافر ماں کی طرف بڑھنے لگی  ( کافر ماں کے پاس بچی پرورش پاتی تو کفر کی طرف مائل ہوجاتی ) ، یہ دیکھ کر نبیِّ کریم نے بچی کے لئے دعا کی : اے اللہ ! اسے ہدایت عطا فرما ، بچی فوراً والد کی جانب بڑھ گئی ، والد حضرت رافع بن سنان نے بچی کو تھام لیا۔  [10] بعض روایتوں میں ذکر ہے کہ وہ لڑکا تھا اور بعض روایات میں آیا ہےکہ وہ لڑکی تھی ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہوں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی 



[1] ترمذی ، 5 / 383 ، حدیث : 3703 ، الاحادیث المختارۃ ، 7 / 141 ملخصاً

[2] تاریخ ابن عساکر ، 30 / 50ملخصاً

[3] مسلم ، ص1039 ، حدیث : 6396 ، مرقاۃ المفاتیح ، 10 / 223 ، تحت الحدیث : 5895 ملخصاً

[4] تاریخ المدینہ لابن الشبہ ، 1 / 499 ، حدائق الانوار ، 1 / 65 ، سبل الہدیٰ والرشاد ، 5 / 388

[5] معجم کبیر ، 7 / 298 ، حدیث : 7191 ، دلائل النبوۃ لاسماعیل ، 1 / 427

[6] مرقاۃ المفاتیح ، 10 / 353 ، تحت الحدیث : 6005

[7] مسند ابن راہویہ ، 1 / 19

[8] دلائل النبوۃ للبیہقی ، 6 / 207

[9] الاصابہ ، 3 / 471

[10] ابو داؤد ، 2 / 397 ، حدیث : 2244


Share