حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی سادگی

روشن ستارے

حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی سادگی

* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ اگست2021ء

مسلمانوں کے خلیفۂ ثانی ،  امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  نے وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے حاکم ہونے کے باوجود اپنی زندگی کا معیار معمولی اور سادہ رکھا ، بےتکلف ، سادہ اور عام آدمی کی سی زندگی بسر کی ، آپ نے اپنی زندگی کو خوشحالی ، عیش وعشرت ، لذیذ کھانوں اور آسائشوں سے دور رکھا۔ آئیے حضرت فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کی روشن سیرت کے اس چمکدار پہلو کو ملاحظہ کیجئے۔

ملکِ شام کا سفر : امیرُ المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  ملک ِشام تشریف لے گئے ، حضرت ابوعبیدہ بن جرّاح  رضی اللہ عنہ  بھی آپ کے ساتھ تھے ، (راستے میں دریا آیا تو آپ) دونوں حضرات اس جگہ پر تشریف لائے جہاں پانی کم تھا حضرت عمر فاروق اپنی اونٹنی سے اترے اور اپنے چمڑے کے موزے اتار کر اپنے کندھے پررکھ لئے پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے ، یہ دیکھ کر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے عرض کی : اے امیرُالمؤمنین! آپ یہ کام کررہے ہیں اور مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے لوگ آپ کو نظر اٹھا کر دیکھیں۔ ارشاد فرمایا : افسوس اے ابوعبیدہ! یہ بات تمہارے علاوہ کسی نے نہ کہی ، میں تو اس عمل کو اُمّتِ محمدیہ کے لئے مثال بنادینا چاہتاہوں ، کیا تمہیں یاد نہیں ہم ایک بےسرو سامان قوم تھے ، پھر اللہ کریم نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزّت بخشی ، جب بھی ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ پاک ہمیں رسوا کردے گا۔ [1] سفرِ حج : آپ  رضی اللہُ عنہ  ایک بار حج کے لئے مکّۂ مکرمہ کو روانہ ہوئے تو پورے سفرِ حج میں جہاں کہیں آپ نے پڑاؤ کیا ، نہ وہاں خیمہ لگایا نہ قنات ، بس کسی درخت پر چادر اور چمڑے کا دستر خوان ڈال لیتے اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے۔ [2] زمین پر آرام : جب کبھی شہر سے باہر کہیں سفر وغیرہ پر جاتے تو سفر کے دوران آرام کے لئے مٹی کا ڈھیر لگا کر اس پر کپڑا بچھاتے اور پھر آرام فرمالیتے۔ [3]ننگے پاؤں : کبھی دیکھا گیا کہ (نماز عید کے لئے) ننگے پاؤں ہی تشریف لئے جارہے ہیں۔ [4] اَن چھنا آٹا : جب سے آپ نے رسولُ اللہ  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کو بغیرچھنے آٹے کی روٹی کھاتے ہوئے دیکھا تب سے آپ نے بھی کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔ [5] دو سالن : کبھی یوں ہوا کہ صاحب زادی نے روٹی اور ٹھنڈے شوربے میں زیتون ملاکر آپ کی خدمت میں پیش کیا تو فرمایا : ایک برتن میں دو سالن ؟ میں اسے کبھی نہیں چکھوں گا۔ [6]خشک روٹی : کبھی ایسا ہوا کہ (خشک) شامی روٹی دانتوں سے توڑ کر کھاتے ، کسی نے پوچھا : یا امیر المؤمنین! اگر آپ کہیں تومیں آپ کے لئے نرم غذالے آؤں؟ تو فرمایا : کیا تمہاری نظر میں عرب میں کوئی ایسا شخص ہے جو عمدہ غذا حاصل کرنے کے لئے مجھ سے بھی زیادہ قوت رکھتاہو۔ [7] (یعنی آپ حاکم تھےاور عمدہ غذا حاصل کرسکتے تھے مگر پھر بھی قناعت اختیار کرتے ہوئے خشک روٹی تناول فرماتے) سادہ غذا : کبھی اس طرح ہوا کہ خشک گوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں ابال کر لایا جاتا ، کبھی یوں ہوا کہ قلیل مقدار میں تازہ گوشت لایا جاتا جسے آپ تناول فرماتے[8] کبھی ایسا بھی ہوا کہ شدید بھوک کے عالَم میں آپ کوایک ہی کھجور ملی تو آپ نے اسے کھا کر اوپر سے پانی پی لیا ، پھر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر ارشاد فرمایا : بربادی ہے اس شخص کے لئے جس کو اس کےپیٹ نے جہنّم میں داخل کیا۔ [9]کبھی ایک وفد آکر ٹھہرا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضرت فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کےلئے روزانہ کھانے کے وقت ایک (سوکھی) روٹی چورہ کرکے لائی گئی ، جسے آپ کبھی گھی کے ساتھ کبھی زیتون کے ساتھ تو کبھی دودھ کے ساتھ تناول فرمالیتے۔ [10]پسینہ چوسنے والی قمیص : (ملکِ شام کے سفرمیں) ایلہ کے مقام پر پہنچے تو طویل سفر کے سبب بدن پر موجود قمیص پیچھے سے پھٹ گئی تھی آپ  رضی اللہُ عنہ  نے وہاں کے حاکم کو اپنی قمیص دھلوانے اور پیوند لگانے کےلئے دے دی ، حاکم نے پیوند لگا کے اسے دھلوادیا اور ساتھ ہی اُس جیسی ایک نئی قمیص بھی بنوا کر آپ کی خدمت میں بطورِ تحفہ پیش کردی۔ آپ نے نئی قمیص کو دیکھا ، اس پر ہاتھ پھیرا اور اپنی وہی پیوند والی پرانی قمیص پہن لی اور فرمایا : میری یہ قمیص تمہاری قمیص کے مقابلے میں زیادہ پسینہ چوسنے والی ہے۔ [11] دیر سے آنے پر معذرت : کبھی یوں ہوا کہ آپ کو نماز جمعہ کے لئے تاخیر ہوگئی ، جب آپ تشریف لائے تو لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مجھے اپنی اس قمیص کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی قمیص نہیں ہے۔ [12] قمیص پرچار پیوند : کسی نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان قمیص پر چار پیوند دیکھے۔  [13]تہبند پر پیوند : کسی نے دیکھا کہ آپ کے کپڑوں میں اوپر تلے تین پیوند ( یعنی کپڑے کے جوڑ) ایک جگہ پر لگے تھے کہ ایک پیوند گل گیا تو اس کے اوپر ایک اور لگالیا ، کسی نے دیکھا آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں خطبہ دیااور اس وقت آپ کے تہبند شریف میں بارہ پیوند تھے[14] کسی نے دیکھا کہ آپ خانۂ کعبہ کا طواف کررہے ہیں اور تہبند پر بارہ پیوند ہیں۔ [15] کسی نے آپ کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ تہبند پر کئی پیوند ہیں اور کہیں کہیں اس میں چمڑا بھی لگا ہے۔ [16] قحط کے زمانے میں آپ کے تہبند پر 16 پیوند دیکھے گئے۔ [17] بقدرِ کفایت خوراک : آپ  رضی اللہُ عنہ  اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے بقدرِ کفایت ہی خوراک لیا کرتے تھے ، گرمیوں میں ایک لباس لیتے اگر وہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے پیوند لگا لیتے ، جب تک اس سے کام چلتا چلالیتے اور پھر اسے تبدیل کرلیتے ، ہرسال پچھلے سال سے کم درجے کا کپڑا ہی لیتے۔ کسی نے آپ سے اس معاملے میں بات کی تو آپ نے فرمایا : میں مسلمانوں کے مال سے اپنے خرچے کے لئے مال لیتا ہوں اور مجھے اتنا ہی کفایت کرتا ہے۔ [18]یومیہ اَخراجات : کسی نے یوں روایت کی : امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  اپنے اور اپنے گھروالوں پر یومیہ فقط دو درہم خرچ کیا کرتے تھے۔ [19]حج کے اخراجات : کسی نے یوں بتایا کہ آپ حج کے لئے گئے تو فقط 180 درہم خرچ کئے۔[20]  قرض : جب آپ کو ضرورت پیش آتی تو آپ بیتُ المال (سرکاری خزانے) سے قرض بھی لے لیتے ، بعض اوقات بیتُ المال کے نگران آپ کے پاس آتے اور قرضہ واپس مانگتے اور لوٹانے کا پابند کردیتے لہٰذا آپ قرضہ کی رقم لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے کبھی یوں ہوتا کہ جب آپ کا وظیفہ ادا کیا جاتا تو آپ اس میں سے قرض کی رقم لوٹاتے۔ [21]مسواک سے مَحبّت : جب رمضانُ المبارک کی آمد ہوتی تو آپ یکم رمضان کی شب نمازِ مغرب کے بعد لوگوں کو نصیحت آموز خطبہ ارشاد فرماتے۔ [22] آپ کو کثرت سے مسواک کرتے دیکھا گیا۔ [23]

پیارے اسلامی بھائیو! جس سادگی وعاجزی نے حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کی عظمتوں کو چار چاند لگائے ، اس زمانے میں ان کی جس جس ادا پر عمل کرنا ہمارے لئے ممکن ہووہ اپناکر  ہم فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کی پیروی کی برکتیں پاسکتے ہیں۔

شہادت : مسلمانوں کے اس عظیم خلیفہ کو 26 ذو الحجۃ بدھ کے دن شدید زخمی کردیا گیا تھاجبکہ یکم محرمُ الحرام 24 ہجری بروز اتوار کو روضۂ رسول میں آپ  رضی اللہُ عنہ  کی تدفین ہوئی۔ آپ کی خلافت تقریباً 10 سال 5 ماہ اور21روز رہی۔ [24]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی



[1] مستدرک 1 / 236 ، حدیث : 214

[2] تاریخ ابن عساکر ، 44 / 305

[3] مصنف ابن ابی شیبۃ ، 19 / 144 ، رقم : 35603

[4] مستدرک 4 / 32 ، حدیث : 4535

[5] طبقات ابن سعد ، 1 / 301

[6] ایضاً ، 3 / 243

[7] ریاض النضرۃ ، 1 / 365

[8] تاریخ ابن عساکر ، 44 / 298

[9] مناقب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب ، ص135

[10] تاریخ ابن عساکر ، 44 / 298۔ زہد ابن المبارک ، ص204

[11] تاریخ الرسل والملوک ، 4 / 64

[12] طبقات ابن سعد ، 3 / 251

[13] مصنف ابن ابی شیبہ ، 19 / 139 ، رقم : 35588

[14] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 108

[15] طبقات ابن سعد ، 3 / 250

[16] ایضاً ، 3 / 250

[17] ایضاً ، 3 / 243

[18] ایضاً ، 3 / 234

[19] ایضاً ، 3 / 234

[20] ایضاً ، 3 / 234

[21] مناقب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب ، ص 100

[22] مصنف عبد الرزاق ، 4 / 204 ، حدیث : 7778

[23] طبقات ابن سعد ، 3 / 220

[24] طبقات ابن سعد 3 / 278


Share