صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن مَسعود رضی اللہ عنہ ایک عظیم صحابی کے بارے میں کلماتِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ ان کا اسلام لانا (کفار پر) غَلَبہ تھا، ان کی ہجرت (مسلمانوں کے لئے) مدد تھی، ان کی خِلافت (اُمّت کے لئے) رَحمت تھی، اللہ پاک کی قسم! جب تک وہ اسلام نہ لے آئے ہم کعبۃُ اللہ کے پاس نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج 3،ص204) اے عاشقانِ رسول! یہ معزّز، محترم اور محسِن ہستی خلیفۂ ثانی امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ عُمدہ اَوْصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزیّن تھے، آپ اصلاح قبول کرنے کا ایسا جذبہ رکھتے تھے کہ امیرُالمؤمنین ہونے کے باوجود کوئی ماتحت نصیحت آمیز بات کہتا تو بُرا منانے کے بجائے اس کی بات کو خوشی سے قبول فرما لیتے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،ج8،ص148، حدیث:10ماخوذاً) اللہ کریم نے آپ کو قدرتی رُعْب و دبدبہ سے بھی نوازا تھا، حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ کے دل پر پاک پروردگار کی عظمت غالب رہتی تھی جس کی وجہ سے شیطان آپ سے دُور بھاگتے تھے،کفّار تَھرتَھراتے اور لوگ مرعوب رہتے تھے۔(تیسیر للمناوی،ج 1،ص289، نھایۃ الارب،ج 6،ص91 ماخوذاً) آئیے اس عظیم وصف کی چند جھلکیاں دیکھئے: کفار پر دبدبہ حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ شیرِخدا کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے اعلانیہ ہجرت نہیں کی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تلوار لی، کمان کاندھے پر لٹکائی اور تیروں کا تَرکَش ہاتھ میں لےکر حَرَم روانہ ہوئے۔ کعبۃُ اللہ شریف کے صحن میں قریش کا ایک گروہ موجود تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پورے اِطمینان سے سات چکر لگا کر طواف مکمل کیا اور سُکون سے نَماز ادا کی، پھر کفار کے ایک ایک حلقے کے پاس جاکر کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: تمہارے چہرے ذلیل ہوگئے ہیں، جس نے اپنی ماں کو نوحہ کرنے والی، بیوی کو بیوہ اور بچّوں کو یتیم کرنا ہو وہ حَرَم سے باہَر آکر مجھ سے دو دو ہاتھ کرسکتا ہے۔(اسد الغابہ،ج 4،ص163) بادشاہوں پر ہیبت رُوْم اور فَارِس کے بادشاہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہیبت سے خوفزدہ رہا کرتے تھے۔(سمط النجوم،ج 1،ص448) سرداروں پر رُعْب ایک مرتبہ ملکِ فارس کے ایک بہت بڑے سردار ہُرْمُزان (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، ان) کے ساتھ 12قیدیوں کو بارگاہِ فاروقی میں لایا گیا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ مسجد میں آرام فرما رہے تھے۔ کہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیدار نہ ہوجائیں اس ہیبت اور خوف کی وجہ سے ہُرْمُزان سمیت سب لوگ ہلکی آواز میں باتیں کرنے لگے۔(طبقات ابنِ سعد،ج 5،ص65، محض الصواب، ص447) شیطان کی گھبراہٹ و رُسوائی فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: عمر کے اسلام لانے کے بعد شیطان جب بھی عمر سے ملا تو وہ منہ کے بَل ہی گِرا ہے۔(معجم کبیر،ج 24،ص305، حدیث:774) ایک مقام پر فرمایا: اے اِبنِ خطاب! جس راستے پر تم چلتے ہو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔(بخاری،ج 2،ص403، حديث:3294) ایک جگہ ارشاد فرمایا: آسمان میں کوئی ایسا فرشتہ نہیں جو عمر کی عزت نہ کرتا ہو اور زمین میں کوئی ایسا شیطان نہیں جو عمر سے گھبراتا نہ ہو۔(کنزالعمال، جز11،ج 6،ص263، حدیث:32720ملتقطاً) شیطان بھی ڈرتا تھا حضرت سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: ہم تمام صحابہ رضی اللہ عنہم یہی سمجھتے تھے کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو شیطان ہے وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ آپ کو کسی غلط کام کا حکم دے۔(کنزالعمال، جز13،ج 7،ص12، حدیث:36141 ملتقطاً) انسانی اور شیطان جنات کسی موقع پر ایک حبشی لڑکی اُچھل کُود رہی تھی اور لوگ اس کے گرد جمع تھے کہ اچانک حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آگئے لوگ آپ کے خوف اور ہیبت کی وجہ سے وہاں سے فوراً بھاگ گئے۔ اس موقع پر حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہعلیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانی اور جناتی شیطان عمر کو دیکھ کر بھاگ رہے ہیں۔(ترمذی،ج 5،ص387، حدیث:3711) عورتیں خاموش ہوگئیں ایک دن حضرت سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کچھ قریشی عورتیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بلند آواز میں سوالات کررہی تھیں۔ جیسے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے داخل ہونے کی اجازت مانگی تو وہ عورتیں آپ کی آواز سنتے ہی ہیبت اور خوف سے پردہ میں چلی گئیں۔(بخاری،ج 2،ص526، حدیث:3683ملتقطاً، مرقاۃ المفاتیح،ج 10،ص388، تحت الحدیث:6036) سال گزر گیا حضرت سیّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سال تک ٹھہرا رہا کہ ان سے ایک آیت کے بارے میں پوچھوں، مگر ان کی ہیبت کی وجہ سے سوال کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔(بخاری،ج 3،ص359، حدیث:4913) مسلسل دیکھنے کی ہمت نہ پاتے حضرت سیّدُنا عبدالرّحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:تم لوگ جان لو! ہم میں سب سے زیادہ رُعْب و دَبْدَبے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے یہاں تک کہ اللہ پاک کی قسم! ہم طاقت نہیں رکھتے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی طرف مسلسل دیکھتے رہیں۔(تاریخ طبری،ج 3،ص298) اللہ نے ہیبت بڑھائی ایک مرتبہ ایک شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا:ہم پر نَرْمی کیجئے، ہمارے دل آپ کی ہیبت سے بھر چکے ہیں، آپ نے پوچھا: کیا اس کی وجہ ظلم ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے ارشاد فرمایا: اسی وجہ سے اللہ پاک نے تمہارے سینوں میں میری ہیبت بڑھا دی ہے۔(نھایۃ الارب،ج 6،ص91) تابعین پر رعب و دبدبہ تابعی بُزُرگ حضرت عَمْرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہیبت مجھ پر اتنی زیادہ تھی کہ میں پچھلی صَف میں رہا کرتا تھا ایک مرتبہ میں دوسری صف میں تھا تو آپ رضی اللہ عنہ زَرد چادر اوڑھے تشریف لائے اور 3مرتبہ ارشاد فرمایا: اللہ کے بندو! نماز(پڑھو)۔(تاریخ ابن عساکر،ج 44،ص419) پیارے اسلامی بھائیو! امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حق بات میں نَرْم رہتے تھے اور دین کو نافذ کرنے میں کسی کی رعایت نہیں فرماتے تھے، لیکن یہ یاد رہے کہ اس ہیبت و جلال کے باوجود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پاس ہمیشہ حاضر ہوتے، ان کے ساتھ مجلس و محفل میں شریک ہوتے تھے اور باہم مشورہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جب تک تم کچھ نہیں کہو گے تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں اور جب تک میں تمہاری بات نہ سُن لوں میرے لئے کوئی بھلائی نہیں۔(کشف الاسرار،ج 3،ص346) اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
وہ عالَم دَبْدَبہ
کا کانپتے ہیں قَیْصر و کِسْریٰ
ہے جن سے دِین
کی شاں حضرت فاروقِ اعظم ہیں
گلی سے ان کی
شیطاں دُم دَبا کر بھاگ جاتا ہے
ہے ایسا رُعْب
ایسا دَبْدبہ فاروقِ اعظم کا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی
Comments