مولاعلی کی سادگی و انکساری

روشن ستارے

مولا علی کی سادگی و انکساری

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2023ء

 ایک مرتبہ ایک صحابیِ رسول نے بہت پرانی چادر اوڑھی ہوئی تھی ، چادر اس قدر استعمال ہوچکی تھی کہ اس کے دونوں کناروں سے دھاگے لٹک گئے تھے ، ایک خادم نے عرض کی : مجھے آپ سے کچھ کام ہے ، صحابی نے فرمایا : تمہیں کیا کام ہے ؟ عرض کی : اس چادر کو اپنے آپ سے جُدا کردیجئے ، یہ سنتے ہی وہ صحابیِ رسول بیٹھ گئے اور چادر کا ایک کونا اپنی دونوں آنکھوں پر رکھ کر رونے لگےاور اتنا روئے کہ آواز بلند ہوگئی ، خادم نے کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس بات سے آپ کو اتنی تکلیف پہنچے گی تو چادرالگ کرنےکا نہ کہتا ، صحابیِ رسول نے فرمایا : اس چادر سے میری محبت میں اضافہ ہوتا ہے یہ مجھے میرے دوست نے تحفے میں دی تھی ، خاد م نے پوچھا : آپ کے دوست کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا : حضرت عمر فاروق۔   [1]

پیارے اسلامی بھائیو ! حضرت سَیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے تحفے کو سنبھال کر رکھنے والے ، اسے پہننے والے ، ان کی محبت میں اضافہ کا دَم بھرنے والے صحابیِ رسول کوئی اور نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، شیرِ خدا حضرت سَیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالیٰ وجہَہُ الکریم تھے۔ آپ جہاں بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں وہیں آپ کی ذات میں سادگی و انکساری کا پہلو بھی نُمایاں دکھائی دیتا ہے ، علامہ ابنِ عبدُ البَر  ( سالِ وفات : 463ھ )  فرماتے ہیں : حضرت مولا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ لباس کُھردُرا پہننے اور کھانے کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انداز پر تھے۔[2]آئیے کھانے اور لباس کے حوالے سے مولا علی رضی اللہ عنہ کی سادگی ملاحظہ کیجئے : 3 درہم کی قمیص : ایک مرتبہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بازار میں تشریف لائے اور فرمانے لگے : کسی کے پاس اچھی قمیص ہے جو 3 درہم میں فروخت کرتا ہو ؟ ایک آدمی نے کہا : میرے پاس ہے ، پھر جاکر ایک قمیص لایاجو آپ کو بہت پسند آئی تو آپ نے ارشاد فرمایا : یہ تو 3 درہم سے زیادہ کی ہے۔ اُس نے کہا : نہیں ، بلکہ اس کی قیمت یہی ہے۔ آپ نے تھیلی سے تین درہم نکال کر اسے دےدیئے۔[3] جاننے والے سے قمیص نہ خریدی : ایک مرتبہ آپ پرانی چادر کا تہبند باندھے ہاتھ میں کوڑا پکڑے بازار پہنچے گویا کہ ایک دیہاتی معلوم ہورہے تھے ، آپ نے کسی دکاندار سے تین درہم کی قمیص خریدنا چاہی اس نے آپ کو پہچان لیا توآپ نے اس سے نہ خریدی دوسرے کے پاس پہنچے اس نے بھی پہچان لیا تو آپ نے اس سے بھی قمیص نہ خریدی پھر ایک لڑکے کے پاس پہنچے اور اس سے تین درہم کی قمیص خرید لی ، بعد میں لڑکے کا والد آپ کی خدمت میں ایک درہم لےکر حاضر ہوگیا اور کہنے لگا : وہ قمیص 2 درہم کی تھی ، آپ نے  ( درہم نہ لیا اور )  فرمایا : ہم دونوں نے اپنی خوشی سے یہ سودا کیا تھا۔[4]  ایک درہم نفع : ایک بار آپ رضی اللہ عنہ ایک موٹی چادر لےکر بازار گئےاور فرمایا : میں نے اس چادر کو 5 درہم میں خریدا ہے ، کوئی ہے جو مجھے ایک درہم نفع دے تو میں اسے یہ چادر بیچ دوں ؟[5]تلوار کون خریدے گا ؟ ایک مرتبہ آپ نے اپنی تلوار منگوائی اسے مِیان سے باہر نکالا اور فرمایا : اس تلوار کو کون خریدے گا ، اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس ایک تہبند کی قیمت ہوتی تو میں اس تلوار کو نہ بیچتا۔[6]غلام کو اچھی قمیص دی : ایک مرتبہ آپ نےدکاندار سے 2 قمیصیں خریدیں ، پھر اپنے غلام سے فرمایا : دونوں میں جو تمہیں پسند ہو وہ لے لو ، اس نے ایک لےلی تو آپ نے دوسری لی اور اسے پہن کر اپنے ہاتھ کو لمبا کیا اور دکاندار سے فرمایا : جو آستین زیادہ ہے اسے کاٹ دے ، دکاندار نےاسے کاٹ کر ترپائی کردی ، آپ نے اسے پہنا اور آگے بڑھ گئے۔[7]  غرور سے دور لباس : ایک مرتبہ آپ باہر تشریف لائے تو جسم مبارک پر 2چادریں تھیں ، ایک چادر سے تہبند باندھ رکھا تھا جبکہ دوسری چادر بقیہ جسم پر لپیٹ رکھی تھی ، چادر کی ایک جانب لٹکی ہوئی تھی جبکہ دوسری جانب اوپر اٹھی ہوئی تھی اور آپ نے تہبند کو کپڑےکے ایک ٹکڑے سے باندھ رکھا تھا ، ایک اَنجان دیہاتی پاس سے گزرا تو کہنے لگا : آپ ان کپڑوں میں میت معلوم ہوتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے دیہاتی شخص ! ان دونوں کپڑوں کو میں نے اس لئے پہنا ہے تاکہ غرور سے زياده دور رہوں ، نماز میں زياده آسانی ہو اور بندہ مؤمن کے لئے اچھا طریقہ ہو۔[8]سادہ لباس : ایک گستاخ خارجی شخص نے مولا علی رضی اللہ عنہ کو لباس کے بارے میں ملامت کی تو آپ نے فرمایا : تمہارا اس لباس سے کیا لینا دینا ؟ میر ا لباس متکبرانہ ( تکبُّر والا )  نہیں ہے او ر زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ مسلمان اس معاملے میں میری پیروی کریں۔[9]  ستو کا تھیلا : ایک مرتبہ آپ نے ایک شخص کو کسی علاقہ پر عامل مُقَرّر کیا اور نصیحت کی : نماز پڑھنے والے راتوں کو آرام نہیں کرتے۔ پھر اسی سے فرمایا : ظہر کے وقت میرے پاس آنا۔ چنانچہ وہ شخص ظہر کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا دروازے پر دَرْبان  ( یعنی چوکیدار )  نہ ہونے کی وجہ سے سیدھا اندر چلا گیا۔ آپ تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس ایک پیالہ اور پانی کا لوٹا ر کھا ہوا تھا ، کچھ دیر کے بعد آپ نے اپنا تھیلا منگوایا تواس شخص کے دل میں خیال آیا کہ حضرت علی نے مجھے ایک ذمہ داری دی ہے لہٰذا مجھے کچھ ہیرے موتی بھی دیں گے۔ آپ نے اس کو کھول کر کچھ سَتّو نکالا ، اسے پیالے میں ڈالااور اس میں پانی ملایاپھر خو د بھی پیا اور اسے بھی پلایا۔ اس سے رہا نہ گیا تو کہنے لگا : یا امیر المؤمنین ! آپ اسے بند کر کے کیوں رکھتے ہیں حالانکہ عراق میں کھانے کی فراوانی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں کنجوسی و بخل کی وجہ سے اسے تھیلے میں بند کرکے نہیں رکھتا ، میں ضرورت سے زیادہ کھانا نہیں خریدتا  ( اور تھیلے کو بند رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ )  مجھے اندیشہ ہے کہ یہ ضائع ہوجائے گا تو پھر دوسرا کھانا بنانا پڑجائے گا لہٰذا میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور مجھے پاکیزہ کھانا کھانا ہی پسند ہے۔[10] نفس کشی : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کسی نے فالودہ پیش کیا تو آپ نے اسے سامنے رکھ کر ارشاد فرمایا : بے شک تیری خوشبو عمدہ ، رنگ اچھا اور ذائقہ لذیذ ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے نفس کو اس چیز کا عادی بناؤں جس کا وہ عادی نہیں۔[11]حلوا تناول نہ کیا : ایک مرتبہ مولا علی کے سامنے کھجور اور گھی کا حلوا پیش کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے رُفقا کے سامنے رکھ دیا ، انہوں نے اسے کھانا شروع کردیا ، آپ نے ارشاد فرمایا : اسلام گم شدہ اونٹ نہیں ہے لیکن قریش نے یہ چیز دیکھی تو اس پر ٹوٹ پڑے۔[12]وفات و وصیت : سن 40 ہجری 17 رمضان کو ابنِ ملجم خارجی نے کوفہ میں جب آپ پر قاتلانہ حملہ کیا تو آپ کے منہ مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے : ربِّ کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا ، زہر میں بجھی ہوئی تلوارکا وار آپ کے دماغ تک پہنچ گیا تھا ، آپ نے اپنے گھر والوں کو کچھ وصیتیں ارشاد فرمائیں ، آپ کے پاس نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بچی ہوئی خوشبو موجود تھی ایک وصیت یہ کی کہ مجھے  ( رسولِ کریم کی )  وہی خوشبو لگاکر دفن کیا جائے۔ آپ کی زبان پر مسلسل کلمۂ طیبہ جاری رہا ، تین رات کے بعد  ( 21 رمضان کو )  آپ نے شہادت پائی۔   [13]  آپ نے سونا چاندی کے انبار نہ چھوڑے صرف 700 درہم اپنے پیچھے چھوڑے اور ان سے بھی گھر والوں کے لئے ایک غلام خریدنے کا ارادہ رکھتے تھے۔[14]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] تاریخ المدینہ لابن شبہ ، ص938

[2] الاستذکار ، 7 / 329

[3] فضائل الصحابۃ لاحمد ، 1 / 545 ، حدیث : 912

[4] الزہد لاحمد ، ص156 ، حدیث : 691

[5] الزہد لاحمد ، ص157 ، حدیث : 694

[6] الزہد لاحمد ، 158 ، حدیث : 702

[7] الزہد لاحمد ، 158 ، حدیث : 708

[8] الزہد لابن المبارک ، ص261 ، رقم : 756

[9] الزہد لاحمد ، ص158 ، حدیث : 706

[10] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 123

[11] الزہد لاحمد ، ص158 ، حدیث : 707

[12] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 123

[13] تہذیب الاسماء واللغات ، 1 / 329-مرقاۃ المفاتیح ، 1 / 271 ، تحت الحدیث : 85

[14] الزہد لاحمد ، ص : 159 ، حدیث : 710


Share