حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہ عنہ

سِن 9یا 10 ہجری ماہ رمضانُ المبارک میں سر کارِ دو عالَم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھےکہ اس دوران  یمن سے 150 افراد کا ایک قافلہ مُشرَّف بَہ اسلام ہونے کے لئے  مدینے کے قریب پہنچا اس قافلے کا سردار لمبے قد کاٹھ والا  ایک خُوبرُو اور حَسین و جمیل  شہسوار تھا اس سردار نے اپنی سواری کو بٹھایا اور تھیلے میں سے ایک عمدہ لباس نکال کر اسے پہن لیا پھرپُروقار انداز میں مسجدِ نبوی کی جانب قدم بڑھانے لگامسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کچھ ارشاد فرما رہے ہیں، سردار نے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کیا اور بیٹھ گیا، لوگوں کی نظریں بار بار اس کی طرف اٹھنے لگیں، حیران ہوکر قریب بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! کیا ابھی میرے متعلّق گفتگو ہورہی تھی؟ اس   نے جواب دیا: نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابھی ارشاد فرمایا تھا کہ تھوڑی دیر میں اس دروازے سے تمہارے پاس یمن کا بہترین شخص آئے گاجس   کے چہرے پر بادشاہی کی علامت ہے، اپنے بارے میں یہ کلمات سُن کر اس  سردار نے اللہ پاک  کا شکر ادا کیا۔([1]) پیارے اسلامی بھائیو! چہرے پر شاہی آثار لئے یمن کےیہ بہترین خُوبرُو سردار حضرت سیّدُنا جَرِیر بن عبداللہ بَجَلی رضیَ اللہ عنہ تھے۔  حُلیہ مبارکہ: آپ رضیَ اللہ عنہ بےحد خوبصورت تھے اسی وجہ سے حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ آپ کو ”اُمّت ِمحمدیہ کا یُوسُف“ کہتے تھے۔ ([2]) تابِعی بزرگ حضرت عبدُالملک بن عُمیرکُوفی رحمۃُ اللہ علیہ کہتے ہیں: میں نے حضرت جَرِیر رضیَ اللہ عنہ کے رُخِ زیبا کو دیکھا تو چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ ([3]) آپ رضیَ اللہ عنہ  کا قد مبارک اتنا طویل تھا کہ کھڑے ہوتے تو اُونٹ کی کوہان تک پہنچ جاتے، جُوتوں کی لمبائی تقریباًڈیڑھ فُٹ ہوتی تھی،داڑھی میں زَعفران کا خِضاب لگاتے تھے۔([4]) بارگاہِ رسالت میں مقام: ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے، نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی لیکن کوئی مناسب جگہ نظر نہ آئی تو اپنی چادر مبارک کوسمیٹا اور آپ کی جانب اُچھالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ا س پر بیٹھ جاؤ، آپ رضیَ اللہ عنہ  نے چادرِ اقدس کوپکڑا اور اسے اپنے سینے اور چہرے سے لگایا پھر اسے چُوما اور اپنی آنکھوں پر رکھ لیا ،اس کے بعد لَوٹاتے ہوئے عرض گزار ہوئے :  یارسولَ اللہ! جس طرح آپ نے میری عزّت اَفزائی فرمائی ہے، اللہ پاک آپ کی عزّت و اِکرام میں اضافہ فرمائے، اس کے بعد پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاضرین سے فرمایا: جب کسی قوم کا کوئی معزَّز فرد تمہارے پاس آئے تو اس کی عزّت کیا کرو۔([5]) عزّت افزائی: ایک مرتبہ یوں عزّت اَفزائی فرمائی کی کہ تم جریر کو بُرا مَت کہو کہ وہ ہمارے اہلِ بیت سے ہے۔([6]) دُعائے مصطفےٰ: ایک مقام پر آپ کو یوں دعا سے نوازا: اللہ پاک نے تمہیں حُسن کی دولت عطا فرمائی ہے،وہ تمہیں حُسنِ اخلاق کی دولت سے بھی مالا مال کرے۔([7]) شفقتِ مصطفٰے: حضرت سیّدنا جَرِیر رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے میرے دل میں نورِ ایمان کی شمع روشن ہوئی تب سے نورِ عالَم صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے( کاشانۂ اقدس کی حاضری سے) نہیں روکا اور جب بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا ہٹ سے نوازتے۔([8]) گھوڑے سے کبھی نہ گِرے: ایک مرتبہ آپ نے اپنی ایک مشکل اور پریشانی کو بارگاہِ رسالت میں یوں پیش کیا  کہ میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ،یہ سُن کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دست ِاقدس آپ کے سینے پر مارااور دعاؤں سے نوازا:اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْہ واجْعَلْہ ھَادِیاً مَھْدِیّاً ترجمہ: الٰہی! اسے ثابت رکھ، اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔([9]) آپ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے کبھی نہیں گِرا۔([10]) معاملہ فہمی:ایک مرتبہ حضرت سیّدُنا جَریر رضیَ اللہ عنہ حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کے دربار میں موجود تھے کہ کسی شخص کی رِیح خارج ہوگئی حضرت عُمر فاروق رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: جس کی رِیح خارج ہوئی ہے وہ کھڑا ہوجائے اور جاکر وضو کرے، ( اب جو بھی وضو کرنے جاتا اس کا پوشیدہ معاملہ سب پر ظاہر ہوجاتا اور اسے نَدامت کا سامنا کرنا پڑتا ،غالباً اسی لئے) حضرتِ جَرِیر رضیَ اللہ عنہ نے عرض کی: آپ ہم سب کو وُضو کا حکم ارشاد فرمادیں، حضرت عمر فاروقرضیَ اللہ عنہ بھی فورا ً معاملہ کی نزاکت کو بھانپ گئے چنانچہ ارشاد فرمایا: میں بھی ارادہ کرتا ہوں اور تم سب بھی ارادہ کرلو کہ مجلس سے فارغ ہوتے ہی وضو کریں گے۔ بعد میں سب نے حضرت عُمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کی، ایک روایت کے مطابق فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا: اللہ پاک تم پر رحم کرے تم زمانۂ جاہلیت میں بھی بڑے سردار تھے اور زمانۂ اسلام میں بھی بہترین سردار ہو۔([11]) خیر خواہی: حضرتِ جَرِیر رضیَ اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کریں گے۔([12])  اور کس قدر بہترین انداز میں اس بیعت کوپورا کیا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہ عنہ نے کسی سے ارشاد فرمایا: میرے لئے ایک  گھوڑا خریدلاؤ، وہ شخص 300 درہم میں ایک  گھوڑا لے آیا، آپ نے  گھوڑے کو دیکھا تو اندازہ لگایا کہ اس کی قیمت 400 درہم ہونی چاہئے، لہٰذا گھوڑے کے مالک سے ارشاد فرمایا:کیا یہ گھوڑا400 درہم میں بیچوگے؟ اس نے کہا: میں راضی ہوں، گھوڑے کی عمدہ چال اور خدو خال دیکھ کر آپ کے دل میں پھر خیال آیا کہ اس کی قیمت 500 ہونی چاہئے، اس طرح کئی مرتبہ دل میں خیال آیا اور100 درہم بڑھاتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ نے اسی گھوڑے کو 800 درہم میں خریدا۔([13]) اپنے آپ کو عام مسلمان سمجھتے: ایک مرتبہ ایک جنگ سےحاصل ہونے والے  مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ دیگر مسلمانوں سے زیادہ بنتا تھا مگر آپ نے زیادہ حصہ نہ لیا اور کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ،میں بھی ایک عام مسلمان ہوں جو اُن کے لئے ہے میرے لئے بھی وہی ہے، جو(اضافہ یا کمی ) ان پر ہو میرے ساتھ بھی ہو۔([14]) گھر والوں کی اصلاح:ایک مرتبہ آپ نے  کسی حاجت مَند کی ضرورت پوری کی تو  آپ کے گھر والوں کو ناگوار گزرا، یہ دیکھ کر آپ رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: دنیاوی مال و دولت اللہ پاک کی امانت ہے اور  ہم اس کے محافظ و نگران  ہیں، لہٰذا جو بُھوکا ہے ہم اس کا پیٹ بھریں گے جو پیاسا ہے ہم اسے سیراب کریں گے۔([15]) روایات کی تعداد: آپ کی روایت کردہ احادیث  کی تعداد 100 ہے  8 حدیثیں مُتّفَق علیہ ہیں (یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں) جبکہ امام بخاری نے ایک اور امام مسلم نے 6 احادیث علیحدہ روایت  کی ہیں۔([16])        وصال مبارکہ: 17ہجری میں کُوفہ کی آباد کاری ہوئی تو آپ  وہاں  تشریف لے گئے اور ایک لمبے عرصہ تک وہیں رونق اَفروز رہے۔ حضرت  سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب کُوفہ میں شَر پسند عَناصِر نے بعض صحابۂ کرام کی شان میں نازیبا کلمات کہنا شروع کئے توآپ  مقام ِقَرقِیْسِیاء میں رہائش پذیر ہوگئے۔ آپ رضیَ اللہ عنہ نے سِن 51یا 54ہجری میں اسی مقام پر وفات پائی۔([17])

اللہ  پاک کی  ان  پر رحمت  ہو اور ان کے صدقے ہماری  بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…عدنان احمد عطاری مدنی   

٭…مُدَرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی



1   سبل الھدیٰ،ج 6،ص311ماخوذاً، طبقات ابن سعد،ج 1،ص261  

2       استیعاب،ج 1،ص309

3        تاریخ ابن عساکر،ج72،ص80

4       تہذیب الاسماء،ج 1،ص153

5        معجم اوسط،ج 4،ص75، حدیث:5261، سبل الھدیٰ،ج 7،ص304   

6       تاریخ بغداد،ج 1،ص201

7      تاریخ ابن عساکر،ج 72،ص80

8          مسلم، ص1032، حدیث: 6363

9     سابقہ حوالہ، حدیث:6364

10       بخاری،ج 3،ص126، حدیث:4357

11        سیر اعلام النبلاء،ج4،ص145

12        معجم کبیر،ج 2،ص349، حدیث:2461

13       تہذیب الاسماء،ج 1،ص153ملخصاً  

14       تاریخ ابن عساکر،ج 72،ص81

15       سابقہ حوالہ،ج 72،ص82

16    تہذیب الاسماء،ج 1،ص153

17        المنتظم،ج 5،ص245، معرفۃ الصحابہ،ج 5،ص83


Share

حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہ عنہ

(1)72سال پہلے سُنی ہوئی منقبت یاد تھی:حضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کا بیان ہے: آپ کی محفل خاموشی کی محفل ہوا کرتی تھی، جو حاضر ہوتا وہ بھی ادب سے خاموش بیٹھتا۔ حُضور سیّدی قطبِ مدینہ بھی خاموش رہتے اور دُرود شریف پڑھتے رہتے تھے۔ ضَروری بات، قراٰن شریف کی تلاوت، نعت خوانی یا کوئی اسلامی کتاب پڑھنے، (سننے) کے علاوہ بہت کم باتیں ہوتی تھیں۔ حضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ محفل میں سیالکوٹ کے مولانا ضِیاءُ اللّٰہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی کتاب ”سیرتِ غوثُ الثقلین“ سُن رہے تھے، کیونکہ حُضور سیّدی قطبِ مدینہ کا یہ معمول تھا کہ کتاب اوّل تا آخر پوری سنتے تھے، جب یہ کتاب ختم ہوئی تو اس کے آخر میں حضرت سُلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی منقبت کے 13اشعار تھے۔ تین مہینے بعد جب مولانا ضِیاءُ اللّٰہ قادری صاحب سیالکوٹ سے (مدینۂ منوّرہ کی حاضری کے دوران ) حضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے فرمایا: میں نے آپ کی لکھی ہوئی کتاب پوری سُنی، اس کے آخر میں آپ نے سُلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی جو منقبت لکھی ہے اس میں تین شعر کم ہیں۔ مولانا ضِیاءُ اللّٰہ قادری صاحب نے عرض کی:حُضور! اِرشاد فرمائیے۔ حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تینوں شعر ارشاد فرمائے جنہیں مولانا ضِیاءُ اللّٰہ قادری صاحب نے اپنی کاپی میں لکھ لئے۔ پھر حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:فقیر نے 72سال پہلے یہ منقبت سنی تھی۔

قربان جائیے حُضور سیّدی قطبِ مدینہ کی یاد داشت (اور قوتِ حافظہ) پر کہ 72سال پہلے سُنی ہوئی منقبت کے تمام شعر آپ کو یاد تھے۔

(2)تاریخِ پیدائش مل گئی: حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک بڑی عمر تقریباً 60، 65سال کا شخص حاضر ہوا، دست بوسی کی (یعنی ہاتھ چومے) اور پنجابی زبان میں عرض کی کہ حُضور! پاکستان بننے سے 22سال پہلے عبدالرّحمٰن نام کا ایک آدمی یہاں آیا تھا، میں اُس کا بیٹا ہوں۔ حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :جی آیا نوں! جی آیا نوں! (یعنی خوش آمدید!خوش آمدید!) ہاں! مجھے یاد آیا آپ کے والد صاحب کا نام عبدالرّحمٰن تھا، ان کے یہاں حج سے 33دن پہلے ایک بچہ پیدا ہوا تھا، انہوں نے ٹیلی گرام کے ذریعے مجھ سے نام پوچھا تھا اور میں نے اُن کے بچے کا نام رکھا تھا۔(یہ واقعہ بیان کرنے والے کہتے ہیں:) وہ شخص رونے لگ گیا، اس کے رونے پر ہمیں تعجب ہوا، جب وہ باہر ہمارے ساتھ آکر بیٹھا تو اس نے بتایا کہ حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس بچے کا نام رکھا تھا وہ بچہ میں ہی ہوں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ میرے والد صاحب مجھے یہ تو بتاتے تھے کہ میرا نام حضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ نے رکھا ہے لیکن اگر آج میرے والد صاحب بھی زندہ ہوتے تو شاید ان کو یہ یاد نہیں ہوتا کہ میں کس تاریخ کو پیدا ہوا؟ کیونکہ ان دنوں ہمارے یہاں تاریخِ پیدائش کا کوئی اندراج نہیں ہوتا تھا، آج مجھے تاریخِ پیدائش بھی مل گئی کہ میں حج سے 33 دن پہلے پیدا ہوا۔

حُضور سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کی یادداشت اتنی تیز تھی کہ تقریباً 80سال پہلے کی باتیں بھی ایسے بیان فرمادیں جیسے کل ہی یہ سارے معاملات ہوئے ہوں۔ اللہ پاک ان کے فیوض و برکات سے ہم کو حصّہ عطا فرمائے، اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہ عنہ

شیخ ِ طریقت،امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے محرَّمُ الحرام1441ھ میں درج ذیل مَدَنی رسائل پڑھنے کی ترغیب دلائی اور پڑھنے/سننے والوں کو دُعاؤں سے نوازا: (1)یاربَّ المصطَفٰے !جوکوئی رسالہ کربلا کا خونیں منظر کے23 صفحات پڑھ یا سُن لےاُسےفیضانِ صحابہ واہلِ بیت سے دونوں جہانوں میں مالا مال فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی:تقریباً11لاکھ 3ہزار 243 اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا (اسلامی بھائی:6لاکھ 53ہزار 17 /اسلامی بہنیں:4لاکھ 50ہزار 226)۔ (2)یااللہ! جو کوئی رسالہامام حُسین کی کراماتکے40 پیج پڑھ یا سُن لے اُس کو فیضانِ شُہَدائے کربلا سے مالا مال فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی: تقریباً10لاکھ 37ہزار 509 اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:6لاکھ 34ہزار 673/اسلامی بہنیں:4لاکھ 2ہزار 836)۔ (3)یاربَّ المصطَفٰے! جوکوئی رسالہ صُلْح کروانے کے فضائل کے43 صفحات پڑھ یا سُن لے،علمِ دین کےلئے اُس کا سینہ کھول دے اور اُس کوبے حساب بخش دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی: تقریباً11لاکھ 38ہزار 461 اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:7لاکھ 19ہزار 991 /اسلامی بہنیں:4لاکھ 18ہزار 470)۔ (4)یااللہ! جو رسالہ یہ وقت بھی گزر جائے گاکے37 صفحات پڑھ یا سُن لےاُسے صَبْر کرنے والا دل اور شُکر کرنےوالی زبان عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔کارکردگی: تقریباً12لاکھ20ہزار332اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا(اسلامی بھائی:7لاکھ79ہزار517 /اسلامی بہنیں:4لاکھ40ہزار815)۔


Share