حضرتِ سیدنا زید بن حارث رضی اللہ عنہ

اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اعلانِ نبوت کرنے سے پہلے صحرائے عرب میں ایک ماں اپنے 8 سالہ بچّے کے ساتھ ننھیال (بچے کے نانا کے گھر) کی طرف جارہی تھی کہ راہزنوں نے حملہ کرکے تمام مال و اَسباب لُوٹ لیااور جاتے ہوئے بچّے کو اُٹھا لے گئے۔ راہزنوں نے مکّہ کے مشہور بازار عُکَّاظ میں اس بچّے کو فروخت کے لئے پیش کردیا۔ادھر حضرت سیّدتُنا خَدیجۃُ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا نے اپنے بھتیجے حضرت حَکیم بن حِزام  رضیَ اللہ عنہ سے فرمایا: میرے لئے ایک عربیُ النّسل،سمجھدار غلام(Slave) خرید لاؤ، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بازار میں اسی بچے کو دیکھا تو اسے خرید کر اپنی پھوپھی کو پیش کردیا۔ جب حضرت خدیجۃُ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  سَرورِ کونین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں تشریف لائیں تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دل کو اس بچّے کے خصائل،عادت و اَطوار اس قدر بھائے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس غلام کو طَلب کرلیا حضرت خدیجہ نے اس غلام کو بارگاہِ اَقدس میں بطورِ تحفہ پیش کردیا۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی میں آنے والے، شفقتوں اور مَحَبّتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے اس غلام کو دنیا حضرت سیّدنا زَید بن حارِثَہ رضی اللہ عنہ کے نام سے پہچانتی ہے۔والد کو ترجیح نہ دی: اتفاقاً حضرت زید رضی اللہ عنہ کی قوم کے چند افراد حج کی غرض سے مکّہ آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا اور جاکر والد کو خبر دی کہ تمہارا بیٹا غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔  باپ نے فوراً اپنے بھائی کو ساتھ لیا اور بیٹے کو غلامی سے چُھڑانے کی خاطر فِدیہ کی رقم لے کر مکۂ مُکرّمہ پہنچ گئے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زید سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو فدیہ کے بغیر اسے لے جاؤ،اور اگر نہ جانا چاہے تو اسے چھوڑ دو ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقابلے میں بھلا کس کو پسند کرسکتا ہوں! آپ میرے لئے ماں، باپ اور چچّا کی جگہ ہیں، باپ اور چچا نے کہا: اے زید ! تم غلامی کو پسند کررہے ہو! حضرت زید  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں اس عظیم ہستی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی غیرمعمولی مَحَبّت اور تعلقِ خاطر کو دیکھ کر پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں آزاد کردیا اور فرمایا:زید میرا بیٹا ہے۔والد اور چچا حضرت زید رضی اللہ عنہ پر یہ اعزاز و اکرام دیکھ کر شاداں و فرحاں ہوئے اور مطمئن ہوکر لوٹ گئے۔([2])باپ کی طرف منسوب کرو: صحابۂ کرام  رضی اللہ عنھم حضرت زید  رضی اللہ عنہ  کو پہلے ”زید بن محمد“  کہا کرتے تھے لیکن جب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 5(اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-)  (تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اُنھیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ  اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے) نازِل ہوئی تو آپ کو ”زید بن حارثہ“ پکارنے لگے۔([3]) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)

فضائل ومناقب:حضرت زَید بن حارِثَہ رضی اللہ  عنہ آسمانِ فضیلت کے وہ چاند ہیں جس کی چمک کبھی مانْد نہ پڑے گی، وفا شِعاری، شوقِ جہاد ،ذوقِ عبادت، عاجزی و انکساری میں بلند مقام پایا، کم عُمْری سے لے کر شہادت تک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساتھ نبھایا، آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے دولتِ ایمان کو جھولی میں بھرنے کا شرف پایا،([4]) وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قراٰن مجید میں آیا،([5]) صحابۂ کرام میں  حِبُّ النَّبِی یعنی    ”نبی کے محبوب“ کا لقب پایا،([6]) سِن 2 ہجری غزوہ ٔبدر کی فتحِ مُبین کی خبر مدینے پہنچانے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ ہی کا نام سامنے آیا،([7]) 2شعبان سِن 5 ہجری رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غزوۂ بَنی مُصْطَلِق روانہ ہوئے تو آپ کو مدینے پاک میں اپنا نائب بنایا،([8])  سات یا نو مرتبہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو امیرِ لشکر بناکر روانہ فرمایا، اور ہر مرتبہ آپ نے کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرایا۔([9]) سفرِ طائف میں رفاقت: اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہِ شوّال میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سفرِ طائف کاقصد کیا، جب کُفّار رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پتھروں کی بارش کرتے،ساتھ ساتھ طَعنہ زنی کرتے، گالیاں دیتے، تالیاں بجاتے اور ہنسی اڑاتے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ دوڑ دوڑ کراپنے محبوب کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور رحمت ِعالَم صلَّی اللہ   علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بچانے کی کوشش کرتے یہاں تک کہ آپ کاسَر زخمی ہوگیا ۔([10]) مددِ الٰہی: ایک مرتبہ آپ رضی اللہ  عنہ سفر پر روانہ ہوئے تو ایک مُنافِق آپ کے ساتھ ہولیا ،ایک کَھنڈر کے پاس پہنچ کر وہ منافِق کہنے لگا: ہم یہیں آرام کرتے ہیں، دونوں اندر داخل ہوئے حضرت زید رضی اللہ عنہ آرام کرنے لگے،یہ دیکھ کر اس منافق نے آپ کو رَسّی سے مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا اور آپ کو قتل کرنا چاہا،آپ نے اس سے پوچھا: تومجھے کیوں مارنا چاہتا ہے؟ اس نے کہا:اس وجہ سے کہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے مَحبّت کرتے ہیں اور میں ان سے شدید نفرت کرتا ہوں، آپ نے فوراً پکارا:  یارحمٰن! اَغِثْنِی، یااللہ ! میری مدد کر، اچانک منافق کے کانوں میں آواز آئی:تیری بربادی! اسے قتل مت کر، منافق کھنڈر سے باہر نکلا مگر کوئی نظر نہیں آیا اس نے پھر قتل کرنا چاہا پھر وہی آواز پہلے سے بھی قریب سنائی دی،منافق نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہیں آیا اس نے تیسری مرتبہ قتل کا ارادہ کیا تو وہی آواز بہت قریب سے آئی،منافق باہر نکلا تو اچانک ایک شہسوار نظر آیا جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا اس نے مُنافق کے سینے میں اس نیزے کو پیوست کردیا اور وہ منافق تڑپ تڑپ  کر ٹھنڈا ہوگیا۔ شہسوار اندر داخل ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کی رسیاں کھولتے ہوئے کہنے لگا: تم مجھے جانتے ہو؟میں جبرائیل ہوں۔([11]) شیطان کو دُھتکاردیا: سِن 8ہجری جُمادَی الْاُولیٰ میں غزوۂ موتہ کا معرِکہ رُونما ہوا تو حضرت سیّدنازید رضی اللہ عنہلشکرِ اسلام کے علَم بردار تھے، شیطان پاس آیا اور آپ کے دل میں زندہ رہنےکی مَحَبّت ڈالی،موت سے نفرت دلائی اور آپ کو دنیاکی لالچ دلائی ،مگر آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مومنین کے دِلوں میں ایمان پختہ ہونے کا وقت تو اب ہے اور شیطان مجھے دنیا کی لالچ دے رہا ہے۔([12]) شہادت: اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد 3 ہزار تھی جبکہ رُومی سپاہی ایک لاکھ تھے،آپ  رضی اللہ عنہ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے کُفّار کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اس کا جواب تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ  رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر کر پاپیادہ میدانِ جنگ میں کُود پڑے، ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کردیا ، کافروں نےآپ رضی اللہ عنہپرنیزوں اور بَرچھیوں کی برسات کردی یوں آپ  رضی اللہ عنہ  جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔([13])

اللّٰہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

_______________________

٭…عدنان احمد عطاری مدنی   

٭…مدرس جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ  



([1])تفسیر در منثور، پ 22،احزاب،تحت الایۃ:5،ج  6،ص563،  طبقاتِ ابنِ سعد،ج 3،ص29تا31ملخصاً

([2])سابقہ حوالہ

([3])مسلم،ص 1014، حدیث: 6262 ، مسئلہ:اس واقعہ و قراٰنی آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ کسی کا بچہ گود لیتے ہیں اور ولدیت میں اصل باپ کی جگہ اپنا نام لکھواتے ہیں یہ جائز نہیں ہے بلکہ لے پالک بچے کو اسی کے اصل والد کی طرف ہی منسوب کرنا لازمی ہے البتہ سرپرست کے طور پر گودلینےوالا  اپنا نام لکھوا سکتا ہے مگر ولدیت کے کالم میں اصل والد ہی کا نام ہو۔(صراط الجنان،ج 7،ص561ملخصاً)

([4])سیرتِ ابن ہشام، ص99

([5])پ22، الاحزاب: 37

([6])تھذیب الاسماء،ج1،ص198

([7])طبقات ابن سعد،ج 2،ص13

([8])دلائل النبوہ للبیھقی،ج4،ص45

([9])طبقات ابن سعد،ج 3،ص33

([10])سبل الھدیٰ والرشاد،ج2،ص438

([11])تفسیر کبیر، تحت بحث:بسم اللہ،ج1،ص154ملخصاً

([12])تاریخ ابن عساکر،ج19،ص368

([13])شرح ابی داؤد للعینی،6/41 تا 42، تحت الحدیث:1557 ملخصاً، سیرتِ مصطفٰے،ص:404


Share