حضرت علیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا علمی مقام

روشن ستارے

حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کا علمی مقام

* اویس یامین عطاری مدنی

ماہنامہ مئی 2021ء

 خلیفۂ چہارُم ، امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا  رضی اللہُ عنہ  نے ایک قول کے مطابق 10سال کی عُمْر میں اسلام قبول کرکے بچّوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف پایا[1] اور بچپن سے لے کر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ظاہری وِصال فرمانے تک سفر و حَضر اور اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے بسا اوقات گھر میں بھی حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ ہوتے اور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّتوں کو دل و جان سے اپناتے ، حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  لوگوں میں سنّت کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ [2]

حضرت علی علم و حکمت کا دروازہ : مولا علی مشکل کُشا ، شیرِ خدا  رضی اللہُ عنہ  علمی اعتبار سے صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے ، چنانچہ  2 فرامینِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ملاحظہ فرمائیے :

(1)اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں۔ [3]

(2)اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ [4]

دعائے مصطفےٰ : حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَنُوراً یعنی اے اللہ! علی کے سینے کو علم ، عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر دے۔ [5]

حضرت علی اور علم کے ہزار باب : بابِ علم و حکمت ، حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم ، رَءُوْفٌ رَّحیم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب سے مزید ایک ہزار باب نکالے۔ [6]

جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو : آپ  رضی اللہُ عنہ  کی علمی لیاقت بیان کرتے ہوئے صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا ابوطُفیل عامر بن واثلہ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : میں حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، آپ نے خطبے کے دوران ارشاد فرمایا : مجھ سے سوال کرو ، اللہ پاک کی قسم! تم مجھ سے قیامت تک ہونے والے جس معاملے کے متعلق بھی پوچھو گے میں تمہیں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ [7]تابعی بُزرگ حضرت سیّدُنا سعید بن مسیّب  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صحابہ میں سوائے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ مجھ سے پوچھ لو۔ [8]

حضرت علی اور قراٰنی آیات کی معلومات : آپ  رضی اللہُ عنہ  قراٰنِ کریم کی آیات کے بارے میں جانتے تھے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے۔ چنانچہ منبعِ علم و حکمت ، مولائے کائنات حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا : مجھ سے قراٰنِ کریم کے بارے میں پوچھو ، بے شک میں قراٰنِ پاک کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازِل ہوئی ہے یا دن میں ، ہموار زمین پر نازِل ہوئی یا پہاڑ پر۔ ایک مقام پر مولا علی مشکل کُشا  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا : اللہ پاک کی قسم! میں قراٰنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے اور کس کے بارے میں نازِل ہوئی ہے۔ [9]

قراٰنِ کریم کے ظاہر و باطن کے عالم : فقیہِ اُمّت کا لقب پانے والے صحابی حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہُ عنہ  آپ  رضی اللہُ عنہ  کی قراٰن فہمی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا علی  رضی اللہُ عنہ  ایسے عالِم ہیں کہ جن کے پاس قراٰنِ کریم کے ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے۔ [10]قراٰنِ کریم کی آیت کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کرتے ہوئے حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : ظاہری مراد اِس کا لفظی ترجمہ ہے باطِنی مراد اِس کا منشاء اور مقصد یا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت یا ظاہر اَحکام ہیں اور باطن اَسرار یا ظاہر وہ ہے جس پر علماء مطَّلَع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں یا ظاہر وہ جو نقْل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشْف سے معلوم ہو۔ [11]

حضرت علی کے فتوے پر عمل : صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کو اگر کسی معاملے میں حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے فتوے کا علم ہوجاتا تو صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  آپ کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن عباس  رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی معتبر شخص ہمیں حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کا فتویٰ بتاتا تو ہم اُس سے تجاوز نہ کرتے۔ [12]

مسائل میں حضرت علی کی طرف رُجوع : صحابۂ کرام بلکہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ  رضی اللہُ عنہا بھی مسائل کے حل کے لئے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے پاس بھیجا کرتی تھیں۔ جیساکہ تابعی بُزرگ حضرت شُریح بن ہانی  رضی اللہُ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہُ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو آپ  رضی اللہُ عنہا نے فرمایا : حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ [13]

حضرت علی اور علمِ میراث : حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  اہلِ مدینہ میں علمِ میراث سب سے زیادہ جانتے تھے۔ [14]

تعدادِ روایات : آپ  رضی اللہُ عنہ  سے 586 احادیثِ مبارکہ مروی ہیں جو کتبِ احادیث میں اپنی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں۔

شہادت : سِن40ہجری میں17یا19رَمَضانُ المبارَک کو فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے راستے میں آپ  رضی اللہُ عنہ  پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور21رَمَضانُ المبارَک کی رات کو جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ [15]

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  کی سیرت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے  مکتبۃُ المدینہ کا رِسالہ  “ کراماتِ شیرِ خدا “ پڑھئے۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] سیرتِ ابن اسحاق ، ص137 ، مقدمۃ ابن الصلاح ، ص300

[2] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 408

[3] مستدرک للحاکم ، 4 / 96 ، حدیث : 3744

[4] ترمذی ، 5 / 402 ، حدیث : 3744

[5] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386

[6] تفسیرِ کبیر ، 3 / 200

[7] جامع بیان العلم و فضلہ ، ص157 ، رقم : 508

[8] مصنف ابن ابی شیبہ ، 13 / 457 ، رقم : 26948

[9] طبقاتِ ابن سعد ، 2 / 257

[10] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 400

[11] مراٰۃ المناجیح ، 1 / 210

[12] طبقات ابن سعد ، 2 / 258

[13] مسلم ، ص130 ، 131 ، حدیث : 639 ، 641 ملخصاً

[14] الاستیعاب ، 3 / 207

[15] طبقات ابن سعد ، 3 / 27 ، کراماتِ شیرِ خدا ، ص13 ملخصاً


Share