روشن ستارے

حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی شجاعت

* مولاناعدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

صداقت وشرافت کے پیکر ، عظمت و جلالت کے مینار ، شجاعت و جرأت کے عَلَم بَردار خلیفۂ اوّل امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کی ذاتِ مبارکہ جہاں بے پناہ خوبیوں اور عمدہ اوصاف سے مزین ہے وہیں آپ  رضی اللہُ عنہ  میں ہمت ، شجاعت ، جرأت اور بلند حوصلہ کی صفت کامل طور پر موجود ہے امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی   رحمۃُ اللہِ علیہ (سال وفات : 671) آیتِ مبارکہ نقل کرتے ہوئے فرماتےہیں : ( وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ-وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ    ) (ترجمۂ کنزُ الایمان : اورمحمدتو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔ )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یہ آیتِ کریمہ حضرت ابو بکر صدیق کی جرأت و شجاعت پر بڑی دلیل ہے کیونکہ جرأت اور شجاعت کی تعریف یہ ہے کہ مصائب در پیش ہونے کے وقت دل مضبوط و مستحکم رہے اور رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رِحلت سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں۔ بڑے بہادر صحابہ بھی ا س موقع پر اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے ، حضرت سیدنا عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  نے کہا : حُضور کی وفات نہیں ہوئی ، حضرت سیدنا عثمانِ غنی  رضی اللہُ عنہ  کی زبان گویا بند ہوگئی ، حضرت سیدنامولاعلی  رضیَ اللہ عنہ  گھر میں بند ہوکر بیٹھ گئےاور معاملہ بڑا دشوار ہوگیا ، آخر کار حضرت ابوبکر صدیق نے اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کر معاملہ کھول دیا۔ [1]  آئیے! خلیفۂ اوّل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  کی زندگی کے چند واقعات ملاحظہ کیجئے جو آپ کی ہمت ، شجاعت اور مجاہدانہ صلاحیتوں پر گواہ ہیں۔

سب سے زیادہ بہادرکون؟

 حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا  رضی اللہُ عنہ  نے ایک دفعہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا : اے لوگو! مجھے اس کے بارےمیں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہے؟ لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین! آپ (سب سے زیادہ بہادر) ہیں۔ فرمایا : میں تو اپنے برابر والے سے لڑتا ہوں۔ تم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کے بارے میں بتاؤ؟ لوگوں نے عرض کی : ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ؟ فرمایا : سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  ہیں ، غزوۂ بدر کے روز ہم نےنبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  (کی خدمت) کے لئے ایک سائبان بنایا ، اور آپس میں کہا : رسولُ اللہ کے ساتھ اس سائبان میں رات کون گزارے گا کہیں کوئی مُشْرِک حملہ نہ کردے۔ اللہ پاک کی قسم! حضرت ابو بکر کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا ، حضرت ابوبکر صدیق ننگی تلوار ہاتھ میں بلند کرتے ہوئے نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کوئی کافر حضور نبیِّ کریم کی جانب متوجہ ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیق اس پر جھپٹ پڑتے ، لہٰذا ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  ہیں۔

کون آگے بڑھا؟

 پھر مولا علی شیرِخدا  رضی اللہُ عنہ  نے (ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا : میں نے دیکھاکہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو قریش نے پکڑ رکھا ہے۔ ایک ناہنجار شخص پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دھکے دیتا تو دوسرا زو رزور سے جھنجھوڑتا۔ اور ساتھ ساتھ نازیبا الفاظ کہتے جاتے : تم وہی ہو جس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کردیا ہے۔ اللہ پاک کی قسم! اس وقت حضرت ابو بکر صدیق کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قریب نہ ہوا۔ حضرت ابوبکر ایک کو مارتے ، دوسرے کو دھکا دیتے تیسرے کو جھنجھوڑتے اور یہ کہتے جاتے : تم برباد ہو جاؤ ، کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتے ہیں : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ [2]

اللہ پاک کی گستاخی کرنے والے کا انجام :

 ایک بار حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پہنچے تو وہاں بہت سارے یہودی ایک یہودی عالم “ فِنْحَاص “ کے گرد جمع تھے ، آپ نے فنحاص سے فرمایا : اے فنحاص! تو اللہ سے ڈر اور اسلام لے آ ، تُو جانتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے تمہارے پاس حق لےکر آئے ہیں تم نے ان کا ذکر اپنی کتابوں میں بھی پایا ہے ، اس پر نامراد فنحاص یہودی کہنے لگا : ہم اللہ کے محتاج نہیں ہیں ، وہ ہمارا محتاج ہے ، ہمیں اس کی حاجت نہیں ، اسے ہماری حاجت ہے ، اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے ہمارا مال بطور ِ قرض نہ مانگتا ، اللہ کریم کی شانِ اقدس میں یہ نازیبا کلمات سُن کر آپ  رضی اللہُ عنہ  کو شدید غصہ آگیا اور آپ نے اس کے منہ پر زور دار تھپڑ ماردیا ، پھر فرمایا : اے دشمنِ خدا! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو ابھی تیری گردن اڑادیتا۔ یہ سُن کر فنحاص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور کہنےلگا : دیکھئے !آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ کیا کردیا ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت ابوبکر صدیق سے استفسار فرمایا : تمہیں ایسا کرنے پر کس بات نے ابھارا ؟ آپ نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! بے شک ! یہ اللہ کا دشمن ہے اس نے ایک خطرناک بات کہی تھی جسے سُن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ [3]

مختلف غزوات و مواقع پر شجاعت :

حضرت سیدنا سلَمہ بن اَکْوَع  رضیَ اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے 7 غزوات میں نبیِّ کریم کے ساتھ شریک ہونے کا شرف حاصل کیا ، اور 9 معرکے ایسے تھے جن میں کبھی تو حضرت اسامہ  رضی اللہُ عنہ  ہم پر امیر تھے تو کبھی حضرت ابو بکر صدیق  رضیَ اللہ عنہ  ہمارے قائد و سپہ سالار تھے۔ [4]

غزوۂ احد میں شجاعت :

غزوۂ احد میں جب لوگ دورانِ جنگ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس سے ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے تو  (رسولُ اللہ کی حفاظت کی غرض سے) سب سے پہلے نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس پہنچنے والے حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ [5]

صلح حدیبیہ کے موقع پر شجاعت :

 صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ کی جانب سے آنے والے نمائندے نے جب جانِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے سخت گفتگو کی تو حضرت ابوبکر  رضی اللہُ عنہ  اس پر غضبناک ہوگئے اور اسے سخت کلمات کہتے ہوئے کہنے لگے : کیا ہم رسولُ اللہ کو رسوا کردیں گے یا ہم انہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟[6]

فتحِ مکّہ کے موقع پر شجاعت :

فتحِ مکہ کے موقع پر رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک جگہ تشریف فرما تھے اور حضرت ابو بکر صدیق حفاظت کی غرض سے تلوار ہاتھ میں لئے سرہانے کھڑے تھے۔ [7]

وصال :

سن13 ہجری ماہ ِ جُمادَی الاخریٰ 22 تاریخ کو جرأت مند اور بلند حوصلہ صحابی حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  اس جہانِ فانی سے رخصت ہو کر دارِ آخرت کی جانب محوِ سفر ہوئے ، آپ نے تاصبحِ قیامت پہلوئے مصطفےٰ میں مدفون رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ [8]

محبوبِ ربِّ عرش ہے اس سبز قبہ میں

پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے[9]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ  فیضان مدینہ کراچی


[1] الجامع لاحکام القران للقرطبی ، 2 / 172 ، جز : 4 ، پ4 ، اٰل عمرٰن : 144

[2] مسند بزار ، 3 / 14 حدیث : 761

[3] سیرت ابن ہشام ، ص227 ملتقطاً

[4] بخاری ، 3 / 98 ، حدیث : 4270

[5] مسند بزار ، 1 / 132 ، حدیث : 63

[6] مصنف ابن ابی شیبہ ، 20 / 418 ، حدیث : 38010

[7] مسند بزار ، 15 / 281 ، حدیث : 8774

[8] تاریخ ابن عساکر ، 30 / 446۔

[9] حدائق بخشش ، ص219


Share