اوصافِ صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

اوصافِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ

*مولانا محمدعلی رضا عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیر المؤمنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ جہالت و بدتہذیبی کے دور میں بھی برے  اَخلاق سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اچھے اوصاف سے متصف تھے۔ حدیثِ پاک میں ہے : اچھی خصلتیں 360 ہیں ، اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرماکراسی کے سبب اسے جنّت میں داخل فرمادیتا ہے اور ابوبکر میں وہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔  [1]

صدیقِ اکبر کی صداقت : ہر معاملے میں سچ بولنے اور سچ کی تصدیق کرنے کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ آپ کو صدیق کہتےلیکن جب آپ نے واقعۂ معراج کی تصدیق کی اور مشرکین سے کہا : اگر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلاجھجک تصدیق کرتا ہوں۔  تو اس واقعے کے بعد آپ صدیق مشہور ہوگئے۔[2]اور آپ کا یہ نام  ” صدیق “  آسمان سے اُتارا گیاہے۔  [3]

صدیقِ اکبر کی غیرتِ ایمانی : عمومًا آپ نہایت ہی نرم دل اور نرم مزاج تھے مگر اسلامی احکامات کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور سخت تھے ، ایک بار یہودیوں کے عالِم نے آپ کے سامنے قراٰنِ کریم کی آیت کا مذاق اڑایا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا اور فرمایا : اے دشمنِ خدا !  اگر مسلمانوں اور یہودیوں میں معاہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اُڑا دیتا۔  [4]

 صدیقِ اکبر کی سخاوت :  آپ نے ہر اس معاملے میں اپنا مال خرچ کیاجہاں حضور کی چاہت تھی ، آپ نے راہِ خدا میں چالیس ہزار درہم یا دینار خرچ کئے۔  [5]   آپ کی سخاوت کوتو خود ربِّ کریم نے بیان فرمایا :  ( الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ ( ۱۸ )  )   [6] ( ترجمۂ کنزالایمان : جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  مفسرینِ کرام کا اجماع ہے کہ یہ آیتِ مبارکہ آپ ہی کے حق میں نازل ہوئی۔[7]  رضائے الٰہی کی خاطر ایسے سات غلام خرید کر آزاد کئے جنہیں راہِ خدا میں بہت تکالیف دی جاتی تھیں۔  [8]اور غزوۂ تبوک کے موقع پر تو ایسی بےمثال سخاوت فرمائی کہ اپنا سارا مال حضور کی بارگاہ میں پیش کردیا۔  [9] خود حضور کی ذات پر آپ نے اپنا مال بڑے کھلے دل  کے ساتھ خرچ کیااور اس بات کو خود پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا کہ  ” مجھے کسی مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابوبکر کے مال نے دیا۔ “  [10]

صدیقِ اکبر کی دور اندیشی : دور اندیشی بہت بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک عظیم وصف تھا ، غزوۂ بدر کے موقع پر آپ نے قیدیوں کوفدیہ لے کر چھوڑنے کا مشورہ دیا اور ان قیدیوں میں سے کئی افراد بعد میں ایمان لے آئے۔  [11] اسی طرح بظاہر مسلمانوں کے خلاف نظر آنے والے صلحِ حدیبیہ کے معاہدے پر بھی دلی اطمینان کا اظہار فرمایا کہ یہ مسلمانوں میں قوّت و استحکام پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور پھر سب نے مشاہدہ کیا کہ یہ معاہدہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے مفاد میں رہا۔  [12]

صدیقِ اکبر کی جرأت و بہادری : آپ اسلام کی سَربلندی کے لئے  ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہے، ہمیشہ جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبوبِ خدا پر اپنی جان نچھاور کی ، حضرت مولیٰ علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کفار کے حملوں سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حفاظت کے لئے ہم نے جوسائبان بنایا تھا اس پر پہرا دینے کے لئے ہم میں سے صرف  صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہی ننگی تلوار لئے آگے بڑھے اس لئے سب سے زیادہ بہادر  صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔  [13]

صدیقِ اکبر کا تقویٰ : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  زہدو تقویٰ میں آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی مثل فرمایا۔  [14] آپ کے متقی ہونے کے بیان میں صرف اتناہی کافی ہے کہ ربِّ کریم نے آپ کو سب سے بڑا پرہیزگار فرمایا ، ارشاد ہوتا ہے :  ( وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ ( ۱۷ )  )  [15] ( ترجمۂ کنزالایمان : اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار )   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد ابوبکر صدیق ہیں۔[16]

نِہایت متقی و پارسا صدیقِ اکبر ہیں

تقی ہیں بلکہ شاہِ اَتْقِیا صدیقِ اکبر ہیں

صدیقِ اکبر کا خوفِ خدا : اپنی ساری زندگی دِین کی خدمت کرنے اور اطاعتِ خداوندی میں گزارنے کے باوجود ہمیشہ خوفِ خدا سے لرزتے رہتے ، آپ کو انبیا و رُسُل کے بعد سب سے افضل ہونے کا شرف عطا ہوا لیکن پھر بھی  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اُخروی معاملات سے خوف زدہ رہتے اور فرماتے : میری چاہت یہ ہے  کہ میں کسی  ( نیک ) مومن کے پہلو کا کوئی بال ہوتا۔  [17]

صدیقِ اکبر کی قناعت : ایک کامیاب تاجر ہونے اور مال و دولت کی فراوانی کے باوجود نہایت قناعت پسند تھے ، اپنے نفس کو قابو کرنے کے لئے دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں سے کنارہ کَشی کرتے ، خود فرماتے ہیں : میں جب سے مسلمان ہوا ہوں کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا تاکہ  عبادت کی حَلاوت  ( مٹھاس )   نصیب ہو۔  [18]

صدیقِ اکبر محافظِ عقیدۂ ختمِ نبوت : عقیدۂ ختمِ نبوت دین کی ضروریات میں شامل ہے  لہٰذا اس پر ڈٹے رہنا اور اس کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ، حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے والے سب سے پہلے خلیفہ ہونے کا شرف ملا ، خلیفہ بننے کے بعد آپ نے کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کرنے سے بھی پہلے ترجیحی بنیاد پر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے خبیث مسیلمہ کذاب  اور اس کے دیگر مرتد ساتھیوں کو کُچلا اور اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا[19]اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو درس دیا کہ عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔

صدیقِ اکبرکی عاجزی : آپ نہایت منکسر المزاج اور بہت سادگی پسند تھے ، خلافت کا تاج سجانے کے بعد بھی آپ کے رویّے میں کوئی تبدیلی نہ آئی ، محلے کی چھوٹی بچیوں کی دلجوئی کے لئے انہیں بکریوں کا دودھ دوہ دیا کرتے اور فرماتے :  ” مجھے اللہ پاک کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویّے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ “   [20]اللہ پاک آپ کے صدقے ہمیں بھی اچھے اَوصاف سے مزین فرمائے اور تمام برے اَخلاق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی سیرت پر تفصیلی مطالعہ کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ” فیضانِ صدیقِ اکبر “  پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ فیضانِ حدیث المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center



[1] تاریخ ابن عساکر، 30 / 103ملتقطاً

[2] مستدرک للحاکم، 4 / 25،رقم : 4515ملخصاً

[3] معجم کبیر،1 / 55،حدیث : 14

[4] تفسیرکبیر،پ3،اٰلِ عمران، تحت الآیۃ : 182، 3 / 446

[5] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3 / 94

[6] پ30،الّیل : 18

[7] تفسیر خازن،پ30،الّیل، تحت الآیۃ : 18، 4 / 384

[8] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3 / 94

[9] ترمذی،5 / 380، حدیث : 3695

[10] ابن ماجۃ،1 / 72،حدیث : 94    

[11] تفسیر خزائن العرفان،پ10،الانفال : 67-فیضان صدیق اکبر، ص256

[12] بخاری، 2 / 226، حدیث : 2731، 2732،تفسیر خزائن العرفان، پ26، الفتح : 1

[13] کنزالعمال،جز12،6  / 235،حدیث : 35685

[14] ریاض النضرۃ،1 / 82                          

[15] پ30،الّیل : 17

[16] تفسیر خزائن العرفان، پ30، الّیل : 17

[17] الزھد لامام احمد، ص138،رقم : 560

[18] منہاج العابدین، ص84

[19] الکامل فی التاریخ، 2 / 218

[20] تہذیب الاسماء واللغات، 2 / 480


Share