Book Name:Rizq Main Izafa Ki Asbab

سے حسنِ سلوک کرتا ہے اور اللہ پاک کی رضا کے لئے مال کے حقوق ادا کرتا ہے ، یہ بندہ اَفْضَل درجے میں ہے۔   ( 2 ) : ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ پاک نے عِلْمِ  ( دین )  کی دولت سے تو نوازا مگر مال عطا نہ فرمایا لیکن وہ ہے سچی نیت والا ، کہتا ہے : اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فُلاں  ( نیک مالدار )  جیسے  ( نیکیوں والے )  کام کرتا۔ان دونوں کا ثواب برابر ہے ( یعنی یہ غریب اور وہ مالدار جو مال کے حقوق ادا کرتا ہے ، ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں ، وہ مال خرچ کرنے کے سبب ، یہ اچھی نیت کے سبب ) ۔  ( 3 ) : ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ پاک نے مال دیا مگر عِلْمِ  ( دین )  عطا نہ فرمایا ، پس وہ اپنے مال میں بغیر عِلْم خلط ملط ہی کرتا ہے ( یعنی ہر حرام و حلال طریقے سے مال کماتا ہے اور ہر حلال و حرام جگہ خرچ کرتا ہے ، نہ خُود عالِم ہے ، نہ عُلما کی مانتا ہے ) ، نہ مال کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتا ہے ، نہ رشتے داروں سے نیک سلوک کرتا ہے ، نہ مال کے حقوق ادا کرتا ہے ، یہ خبیث ترین درجے والا ( Worst Level )  ہے۔  ( 4 ) : ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ پاک نے نہ مال دیا ، نہ عِلْم ، وہ کہتا ہے : اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس فُلاں  ( بُرے مالدار )  کے جیسے کام کرتا   ( مثلاً میں بھی شراب پیتا ، جُوا کھیلتا ، خوب عیش کرتا ) ، تو یہ اپنی نیت پر ہے اور ان دونوں  ( یعنی بُرے مالدار اور جاہِل غریب )  کا گُنَاہ برابر ہے۔ ( [1] )   

کیسی سبق آموز حدیثِ پاک ہے ، ہم امیر ہیں یا غریب ، مالدار ہیں یا تنگدست ، بہر حال عِلْمِ دین ہمیں لازمی سیکھنا چاہئے ، مال ایک آگ ہے ، جو اس کو استعمال کرنا جانتا ہے ، اس کے لئے فائدہ مند ( Useful )  ہے اور جو اس کا استعمال نہیں جانتا ، اسے یہ ہلاک کر ڈالتا ہے ، اس لئے امیر ، غریب سب کو چاہئے کہ عِلْمِ دِین لازمی سیکھے۔ مشہور مفسرِ قرآن ،


 

 



[1]... ترمذی ، کتاب : الزہد ، باب : ما جاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر ، صفحہ : 557 ، حدیث : 2325۔