Book Name:Allah Walon Kay Ikhtiyarat

بہت حیران ہوئے، خاتون سونا گھر لے گئی اور گھر جاکر اس نے بھی پاک صاف ہوکر سورۂ اخلاص پڑھ کر مٹی کے ڈھیلے پر دَم کیا مگر وہ سونا نہ بن سکا،آخر کار 3 دن تک یہی عمل کرتی رہی مگر بے سُود۔ ناچارآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی:حضور!میں نے  بھی سورۂ اخلاص پڑھی، لیکن مٹی سونا نہیں بنی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا: کہ تُو نے عمل تو وہی کچھ کیا مگر تیرے منہ میں فرید کی زبان نہ تھی۔( اللہ کے سفیر ، ص ۲۹۸ ملخصاً)

صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے معلوم ہواکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے نیک بندے  پریشان حالوں ،تنگدستوں  اورمحتاجوں کی مدد فرماکر ان کی حاجت رَوائی فرماتے ہیں ،اگر کسی سائل کو دینے کیلئے کچھ مَوْجُود  نہ ہو تب بھی  یہ حضرات  سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے اور اپنے اِخْتیارات کو استعمال کرتےہوئے   مٹی کوسونا بناکر سائل کی مُراد پُوری کردیتے ہیں مزیدیہ بھی معلوم کہ  اللہ والوں کی زبانوں میں   ایک الگ ہی تاثیر ہوتی ہے۔

شیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’کارتُوس‘‘(Bullet)شیر کو بھی مار سکتا ہے جبکہ بہترین بندوقGun))سے اچّھی طرح فائر (Fire)کیا جائے۔اِسی طرح  یُوں سمجھیں کہ اَوراد و  و ظائف اور دعائیں ’’کارتوس‘‘ کی طرح ہیں اور پڑھنے والے کی زَبان مِثْلِ بندوق۔ تودُعائیں وُہی ہیں مگر ہماری زَبانیں صَحابہ و اَولیاء  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سی نہیں ۔ جس زَبان سے روزانہ جُھوٹ، غیبت،چُغلی، گالی گلوچ، دل آزاری و بد اَخلاقی کا صُدُور جاری رہے، اُس میں تاثیر کہاں سے آئے؟ ہم دُعا تو مانگتے ہی ہیں مگر جب مشکل آتی ہے تو بُزرگوں کے پاس حاضِر ہو کر بھی دعا کی درخواست کرتے ہیں، کیوں ؟ اِس لئے کہ ہر ایک کا ذِہن یِہی بنا ہوا ہے کہ پاک زَبان سے نکلی ہوئی دُعا زیادہ کارگر ہوتی ہے۔( فیضانِ بسم اللہ ،ص ۱۶۱) اس لیے ہمیں چاہیے کہ بزرگوں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے  ان جیسے نیک اعمال