Book Name:Parosi Kay Huquq

اپنے کسی  عزیز کا پتا معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سَرکھجاتے ہیں ۔کیونکہ  ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے،اس کا نام کیا ہے ،کام کیا کرتا ہے، ہم تو بس اپنی مستی میں مست رہنے والے ایسے بے حس ہیں کہ پڑوس میں میت ہوجائے،کوئی بیمار ہو یا کسی پریشانی کا شکارہوجائے توہمیں تعزیت و عیادت کرنے یا اسے دِلاسہ دینے کی  بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

ہاں!مالداروں،سیٹھوں،افسروں،وزیروں،صاحبِ مَنْصَب لوگوں،مخصوص دوستوں،برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خُوشی غمی کے مَواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے یہاں کی تقریبات (Functions)میں بُلاتے ہیں  مگرغریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کےساتھ تعلُّقات قائم  رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،بعض نادان تو اس قدر بےحِس  ہوتے ہیں کہ گھر کے اندر موجود بُھوک و پیاس،بیماری یا آزمائش میں مبُتلا بھائیوں، بہنو حتّٰی کہ والدین تک کو ہی نہیں پوچھتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ گھر کے باہر والے پڑوسیوں کا کیا خیال رکھیں گے اور کیا ان کے حُقُوق ادا کریں گے۔پڑوسیوں کے حُقُوق کی اَہمیَّت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کئی بُزرگوں نے نہ صرف خود  پڑوسیوں کے حُقُوق  ادافرمائے ،بلکہ دوسرے لوگوں  کو  بھی اس کی ترغیب دلائی ہے ۔ چنانچہ

پڑوسیوں کےعام حقوق

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  پڑوسیوں کے حُقُوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے،٭ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ٭ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے،٭جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے،٭مُصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے،٭مُشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، ٭خوشی میں ان کو مبارک باد دے،٭ان کی خوشی میں شرکت کرے،٭ان کی