Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

حواس اور عقل سب سلامت ہیں،مگر جس دن سانسوں کی مالا ٹُوٹی،موت کا فرشتہ آن پہنچا تو لاکھ کوششوں کے باوجود چاہتے ہوئے بھی ہم کچھ نہ کرپائیں گے اور اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا،جیسا کہ

امیر ُالمومنین حضرت سَیِّدُنا  عمر فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اے لوگو! اپنے اعمال کا اس سے پہلے محا سَبَہ کر لو کہ قیامت آجائے اور اُن کا حساب لیا جائے۔(احیاء العلوم، ۵/۱۲۸)

آئیے! اب ہم مُحاسبے کی تعریف سنتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہم زیادہ اچھے انداز میں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں،چنانچہ

محاسَبَہ کیا ہے ؟

حُجَّۃُ الاسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمدغزالیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنی مشہور کتاب"اِحیاء العلوم"میں فرماتے ہیں:اعمال کی کثرت اور مقدار میں زیادتی اور نُقصان کی معرفت کے لئے جوغورکیا جاتا ہے اسے مُحاسَبَہ کہتے ہیں، لہٰذا اگربندہ اپنے دن بھر کے اعمال کو سامنے رکھے تاکہ اسے کمی بیشی کا علم ہوجائے تو یہ بھی مُحاسَبَہ ہے۔(احیاء العلوم،۵/۳۱۹)

فکر ِمدینہ کسے کہتے ہیں ؟

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ  شيخِ طريقت،امیراہلسنَّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس پُرفتن دور میں ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا ذہن دیاہے ،دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اپنے اَعْمال  كا مُحاسَبہ کرنے کو ”فکرِ مدینہ “ کہا جاتا ہے۔ فکر ِمدینہ سے مُراد یہ ہے کہ انسان اُخْرَوی اِعتبار سے اپنے معمولاتِ زندگی پر غور و فِکْر کرے،پھر جو کام اُس کی آخرت کے لئے نُقْصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں، اُن کی اِصْلاح کی