Book Name:Auliya Allah Ki Shan

حضرتِ ابراہیم خَلِیْلُ اللہ،جنابِ عیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامجیسے جلیلُ القدر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سامنے زمین پر جلوہ افروز ہیں، کتنی بڑی عظمت اور جلالتِ محمدی کا مُظاہرہ ہے، میں اسی سوچ و بچار میں تھا اور اپنے دل میں بحالتِ خواب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی قدرو منزلت پر تعجب کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے میں بیدار ہوگیا ،میں نےاسے دیکھا تو وہ مسجدِ اقصیٰ کا منتظم تھا اور اس وقت مسجدِ اقصیٰ کی قندیلیں روشن کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا : (شہِ انبیاء ، سرورِ ہر دوسَرا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مرتبے پر) کیا تعجب کرتا ہے؟ یہ سب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہی کے نُورسےتو پیداہوئے ہیں۔

        یہ سُن کر مجھ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ نماز کےلیے جماعت کھڑی ہوئی تو اس وقت مجھے افاقہ ہوا میں نے  مسجدِ اقصیٰ کے اس منتظم کو تلاش کیا مگر آج تک اسے نہ پایا۔([1])

خلق سے اولیاء اولیاء سے رُسُل

مُلکِ کونین میں انبیاء تاجدار

اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس واقعے سے جہاں ہمارے پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان و شوکت کا پتا چلا ،وہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمّت کے اولیائے کرام اور علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام  کی شان و شوکت اور مقام و مرتبے کا بھی پتا چلتا ہےکہ جب حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ مُصْطَفٰے  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی کہ کوئی ایسا عالِم دِکھائیں، جو انبیائے بنی اسرائیل کی مثل ہوتو  نبیِ داور،شفیعِ محشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی طرف اشارہ فرمایا،اس سے مَعَاذَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہرگز ہر گز کوئی یہ نہ


 



[1]  روح البیان،ج۵،ص۳۷۴ بتغیر قلیل،کوثرُ الخیرات،ص ۳۹