Imam Ghazali رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ bator Hakeem Ul Ummat

Book Name:Imam Ghazali رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ bator Hakeem Ul Ummat

گی وغیرہ وغیرہ خیالات دِل کو پکڑ لیتے اور عبادت سے روکنے لگتے ہیں، اس کا عِلاج یہی ہے کہ لوگوں سے تعلقات کم کر دئیے جائیں کہ جو دوست یا رشتہ دار عِبَادت کی راہ میں رُکاوٹ ہو وہ اَصْل میں دوست نہیں بلکہ دُشمن ہے۔ قیامت کو یاد کیجئے! آہ! میدانِ محشر...!! وہ نفسی نفسی کا عالم...!! ماں اکلوتے کو چھوڑ رہی ہے، باب بیٹے سےدامن چھڑا رہا ہے، بھائی بھائی سے بھاگ رہا ہے، کوئی ایک نیکی دینے کو تیار نہیں، آہ! لوگوں کی وجہ سے عِبَادت سے رکنے والے اس وقت حسرت زدہ ہوں گے، شرم سے سَر جھکائے، واویلا مچائیں گے:

یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)

(پارہ19،سورۃالفرقان:28)

ترجمہ کنزالایمان:وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

تیسری اور چوتھی رکاوٹ: نفس وشیطان: شیطان تو چاہتا ہی یہی ہے کہ بندہ عِبَادت کی طرف نہ آئے، اس کے لئے طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور نفس ہر وقت لذت کا خواہش مند، سست اور سہولت پسند رہتا ہے، ہر گز عبادت پر آمادہ نہیں ہو گا، ان کا علاج یہ ہے کہ شیطان سے جنگ کی جائے، اس کے شَر سے اللہ کریم کی پناہ مانگی جائے اور نفس کا عِلاج یہ ہے کہ اس پر زبردستی عِبَادت کا بوجھ ڈال دیا جائے۔

جب بندہ ان تمام گھاٹیوں سے گزر جاتا ہے تو اب شکر کا مرحلہ آتا ہے کہ بندہ اللہ پاک کا شکر ادا کرے، اس کی حمد بجا لائے کہ ناشکری بندے کو تباہ وبرباد  کر دیتی ہے۔ کیا بلعم بن باعوراء کو نہ دیکھا، کیسا عبادت گزار تھا، کیسا بڑا عالم تھا، زمین پر بیٹھ کر لوح محفوظ کی تحریر پڑھ لیا  کرتا تھا، اس کی دُعائیں قبول ہوتی تھیں مگر یہ ناشکرا تھا، اسے ناشکری کی سزا ملی، اس کا خاتمہ بُرا ہوا، اس کا ایمان چھن گیا، کافِر ہو کر مرا اَور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنّم کا ایندھن بن گیا۔ تو اے جنت کے طلب گارو...!! عِبَادت بھی کیجئے، نیک اَعْمال بھی بجا