Book Name:Madiny Hazri Ka Shoq
میں کافِی کمزوری آگئی، اِسی حالت میں ایک روز آپ رحمۃُ اللہِ علیہ آرام فرما تھے، ظاہِری آنکھیں بند تھیں مگر قسمت بیدار تھی، دِل کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں، مَدَنی آقا، مکی آقا، بگڑی بنانے والے آقا صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے کرم فرمایا، اپنے سچّے عاشِق کے خواب میں تشریف لے آئے:
سَرِ بالیں، انہیں رَحْمت کی ادا لا ئی ہے حال بگڑا ہے تو بیمار کی بَن آئی ہے([1])
سرکارِ نامدار، مکی مدنی تاجدار صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے سچّے عاشق کو حکم فرمایا: مدینے چلے آؤ...! بس اب کیا تھا، مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی آنکھ کُھلی ، اگرچہ طبیعت ناساز تھی، ظاہری جسمانی طاقت میں کافِی کمزوری تھی مگر مَدَنی آقا، محبوبِ خُدا صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم حکم فرما چکے تھے، چنانچہ مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے فوراً حج اور مدینۂ مُنَوَّرہ حاضِری کا پختہ اِرادہ فرما لیا، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے دوست احباب، اَہْلِ خانہ وغیرہ نے بہت عرض کیا: عالی جاہ...!! طبیعت ناساز ہے، چلنا پھرنا بھی دُشوار ہے، اگر آیندہ سال بھی تشریف لے جائیں گے تو حکمِ مصطفٰے صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم پر عَمَل ہو جائے گا مگر مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے عشق کا کمال دیکھئے! طبیعت ناساز، جسمانی طور پر کافِی کمزوری اور اب تو ہوائی جہاز پر سَفَر ہوتا ہے، ہند سے چند گھنٹے میں مدینۂ پاک پہنچا جا سکتا ہے، اُس وقت بحری جہاز پر، سمندر کے راستے سے سَفَر ہوتا تھا، مدینۂ پاک پہنچنے میں کئی کئی دِن لگتے تھے، اِس سب صُورتِ حال کے باوُجُود سچے عاشق رسول، مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے دوست احباب کی عرض پر عشقِ رسول میں وَارَفْتہ ہو کر فرمایا: مدینہ طیبہ کے ارادے سے قَدَم