Book Name:Insan Khasary Mein Hai
شرمندہ ہونے ، ندامت سے آنسو بہانے ، رَبّ کریم کے حُضُور توبہ تائِب ہونے کی رات ہے ، کتنے لوگ جو پچھلے سال ہمارے ساتھ تھے مگر آج وہ قبروں میں ہیں ، اس سے عبرت لینے کی رات ہے مگر افسوس ! ہمارے ہاں لوگ اس رات کو نہ شکر کرتے ہیں ، نہ شرم سے توبہ کرتے ہیں ، نہ عبرت لیتے ہیں ، الٹا اس رات کو شبِ خسارہ(نقصان کی رات ) بنا دیا جاتا ہے۔سال تو گُنَاہوں میں گزرا ، نمازیں قضا کرتے ، اللہ پاک کے اَحکام سے مُنہ موڑتے ، غیبتیں چغلیاں کرتے گزرا ، بدنگاہی اور گندی باتیں کرنے کی عادت جاری رہی ، لوگوں کے عیب ڈھونڈتے رہے ، سال گزر گیا ، مال و دولت کے پیچھے بھاگتے گزرا ، اب جبکہ نیا سال شروع ہونے جا رہا ہے تو * لوگ اس پر جشن مناتے ہیں * شرابیں پی جاتی ہیں * ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے * وَنْ وِیلنگ کے نام پر موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے * بعض اوباش رنگ رلیاں بھی مناتے اور نہ جانے کیسے کیسے گُنَاہ کئے جاتے ہیں۔ آہ ! زندگی کے یہ قیمتی لمحات... ! ! جن کے ذریعے ہم جنّت کما سکتے ہیں ، نیو ائیر نائٹ پر اللہ پاک کا شکر ادا کر کے ، ندامت کے آنسو بہا کر ، عبرت لے کر اپنا مستقبل ، اپنی دُنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں مگر افسوس ! اس رات کو مزید خسارے کی رات بنا دیا جاتا ہے اور اس پر مزید افسوس کی بات یہ کہ ہم وقت گنوا رہے ہیں ، خُود اپنے ہاتھوں سے اپنا نقصان کر رہے ہیں ، اس کا احساس تک نہیں ہوتا ، اُلْٹا ان بُرائیوں کو جشن کا نام دیا جاتا ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
وضاحت : آہ ! ہمارا ساز و سامان ( مثلاً عزّت ، ترقی ، کامیابی ، عروج وغیرہ ) سب تباہ و برباد ہوتا جا رہا ہے اور مصیبت تو یہ ہے کہ ہم نادانوں کو اس تباہی کا اِحْسَاس تک نہیں ہے۔